كيا پراپرٹى كمپنيوں كے حصص ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟
پراپرٹى كمپنيوں كے حصص كى زكاۃ
سوال: 74989
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر ( 69912 ) كے جواب ميں حصص كى زكاۃ ميں تفصيل بيان ہو چكى ہے، كہ اس ميں زكاۃ كب واجب ہوتى ہو گى، اور كب واجب نہيں ہوتى؟
پراپرٹى كمپنيوں ميں يہ حصص دو حالتوں سے خالى نہيں ہيں:
پہلى حالت:
يہ كمپنياں تعميرات اور اس پر تعمير كردہ عمارت كو كرايہ وغيرہ پر دے كر فائدہ حاصل كرنے كے ليے اراضى خريدتى ہوں، تو ان حصص ميں زكاۃ نہيں ہو گى، بلكہ ان حصص كے منافع اگر نصاب كو پہنچيں اور اس پر سال مكمل ہو جائے تو اس منافع ميں زكاۃ ہو گى، كيونكہ ان اراضى اور پراپرٹى ميں زكاۃ نہيں، بلكہ اس سے حاصل ہونے والے فائدہ ميں زكاۃ ہے، اگر يہ فائدہ نصاب كے مطابق ہو اور سال مكمل ہو جائے.
اس پر متنبہ رہنا ہو گا كہ ان كمپنيوں كے خزانے ميں نقدى رقم يا بنك ميں كچھ رقم ضرور ہو گى، اور اس رقم پر زكاۃ واجب ہوتى ہے، لہذا ان حصص كے مقابلہ ميں جو رقم ہو اسے معلوم كركے ہر برس اس كى زكاۃ نكالنى واجب ہے.
دوسرى حالت:
ليكن اگر يہ كمپنياں اراضى اور پراپرٹى اور عمارتيں تجارت كے ليے خريدتى ہيں، تو يہ حصص تجارتى سامان شمار ہونگے، لہذا ان حصص اور اس كے منافع دونوں ميں زكاۃ واجب ہو گى، اس ليے ہر برس ان حصص كى قيمت كے مطابق اور ان كے منافع پر زكاۃ نكالى جائيگى.
پراپرٹى كمپنيوں كا اكثر كاروبار يہى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے ايك پراپرٹى كمپنى كے تابع زمين ميں حصہ ڈالا اور اس پر كئى برس بيت گئے تو اس كى زكاۃ كيسے ادا كرے گا؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ تجارتى سامان ميں حصہ دارى ہے؛ كيونكہ جو لوگ زمين ميں حصہ ڈالتے ہيں، ان كا ارادہ تجارت اور كمائى ہوتى ہے، اس بنا پر ان پر ہر سال اس كى قيمت لگوانے كے بعد زكاۃ كى ادائيگى لازم ہو گى اگر اس نے تيس ہزار كا حصہ ڈالا ہے اور سال مكمل ہونے كے وقت ان حصص كى قيمت ساٹھ ہزار ہو تو اس پر ساٹھ ہزار كى زكاۃ ادا كرنى واجب ہو گى.
اور اگر سال مكمل ہونے كےوقت وہ دس ہزار صرف دس ہزار كے برابر ہوں تو اس كے ذمہ صرف دس ہزار كى زكاۃ ہو گى، سائل كے ذمہ جو باقى برسوں كى زكاۃ ہے وہ اس طرح اندازہ كرتے ہوئے ہر برس كى زكاۃ ادا كرے، ليكن اگر يہ حصص ابھى تك فروخت نہيں ہوئے تو جب يہ فروخت ہوں تو اس وقت اس كى زكاۃ ادا كى جائے، ليكن انسان كى اس ميں سستى نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اللہ تعالى نے جو مقدر كيا ہے وہ فروخت كرے اور اس كى زكاۃ ادا كر دے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 226 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے زمين ميں حصہ دارى كى اور اسے پانچ برس بعد فروخت كيا گيا، تو اس كى زكاۃ كيسے ادا كى جائيگى ؟
كميٹى كےعلماء كرام كا جواب تھا:
" پچھلے چار برس كى زكاۃ وہ ہر برس كى قيمت كے مطابق زكاۃ ادا كرے گا، چاہے اس ميں نفع ہوا ہو يا نفع نہ ہوا ہو، اور آخرى برسوں ميں اصل مال كے ساتھ اس منافع كى بھى زكاۃ ادا كرنا ہو گى" انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 350 ).
چاہے كمپنى زمين فروخت كرتى ہو، جيسا كہ يہ ہے، يا پھر وہ اس پر تعميرات كر كے اسے فروخت كرتى ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے زمين خريدى اور خريدارى كےوقت اس كى نيت تھى كہ وہ اسے تعمير كرنے كے بعد فروخت كرے گا، اور اس كى قيمت حاصل كر كے اور زمين خريدے گا، اور اسى طرح، تو كيا اس حالت ميں اس پر زكاۃ واجب ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اس زمين ميں تجارتى سامان كى زكاۃ واجب ہو گى، كيونكہ اس نے منافع حاصل كرنے كے ليے زمين خريدى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ وہ خريدارى سے قبل فروخت كى نيت كرے يا خريدارى كے بعد، جيسا كہ كوئى شخص لباس سلائى كر كے فروخت كرنے كے ليے كپڑا خريدے" انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 227 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات