ميں ليڈيز اور جينٹس ريڈى ميڈگارمنٹس كى كئى ايك دوكانوں كا مالك ہوں جو مختلف ماركيٹوں ميں واقع ہيں، ميں نے ان حالات كا مطالعہ كيا ہے جن ميں ليڈيز گارمنٹس فروخت كرنا حلال ہيں، اور جب تاجر كو يہ علم ہو جائے كہ يہ لباس خريدنے والا انہيں اللہ تعالى كے حرام كردہ كام ميں استعمال كريگا تو اسے يہ لباس فروخت كرنا جائز نہيں، ليكن تاجر يا ملازم كو يہ علم كيسے ہو گا كہ خريدار اسے اللہ تعالى كے حرام كردہ كام ميں استعمال كريگا، وہ اس طرح كہ فروخت كرنے والا ايسى حالت ميں ہو كہ اسے يہ علم نہ ہو كہ وہ ايسے كام ميں استعمال كريگا ؟
جن كپڑوں كے متعلق علم نہ ہو آيا يہ حلال ميں استعمال ہونگے يا حرام ميں ان كے فروخت كرنے كا حكم
سوال: 75007
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ليڈيز لباس فروخت كرنے والے تاجر حضرات اپنى دوكانوں ميں تين حالات سے خالى نہيں ہو سكتے:
پہلى حالت:
فروخت كرنے والے كے علم ميں ہو يا اس كا غالب گمان ہو كہ يہ اس لباس كا استعمال مباح اور جائز ہوگا، اور اسے كسى حرام كام ميں استعمال نہيں كيا جائيگا، تو وہ يہ لباس فروخت كردے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
دوسرى حالت:
فروخت كرنے والے كو علم ہو يا پھر اس كا غالب گمان ہو كہ يہ لباس اور كپڑے حرام كام ميں استعمال ہونگے، يعنى عورت اسے پہن كر غير محرم مردوں كے سامنے اظہار زينت كريگى، تو اس لباس اور كپڑے كا فروخت كرنا حرام ہوگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ اور برائى اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).
فروخت كرنے والا تاجر لباس اور كپڑے كى نوعيت اور اس لباس كو خريدنے والى عورت كے حال سے يہ معلوم كر سكتا ہے كہ اس كا استعمال كيسا ہوگا.
تو بعض لباس اور كپڑے ايسے ہيں جنہيں ديكھ كى عادتا يہ معلوم ہو جاتا ہے كہ عورت چاہے جتنى بھى بےپرد ہو وہ يہ لباس اپنے خاوند كے علاوہ كسى اور كے سامنے نہيں پہن سكتى، اور اسے پہن كر غير محرم اور اجنبى مرد كے سامنے عورت كے ليے نكلنا ممكن ہى نہيں.
اور كچھ ايسے كپڑے اور لباس ہيں جن كے متعلق فروخت كرنے والے كا غالب گمان ـ اور بعض اوقات يقين ہوتا ہے ـ ہوتا ہے كہ اسے خريدنے والى عورت اسے حرام كام ميں استعمال كريگى.
تو فروخت كرنے والے كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ خريدنے والى عورت كى حالت ديكھ كر جو اسے علم ہو يا اس كے غالب گمان ميں آئے اس پر عمل كرے.
اور بعض اوقات لباس اور كپڑے كا استعمال مباح اور جائز يا پھر حرام استعمال بھى ہو سكتا ہے، ليكن عورتوں كے ليے پردے كا التزام، يا پھر حكومت كا انہيں سختى سے پردہ كروانا اس لباس كے حرام استعمال سے روك سكتا ہے، تو اس حالت ميں يہ لباس فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہوگا.
تيسرى حالت:
فروخت كرنے والے كو شك اور تردد ہو كہ آيا يہ لباس اور كپڑا مباح كام ميں استعمال ہوگا يا حرام كام ميں ؟ اس ليے وہ لباس اور كپڑا دونوں طرح استعمال ہو سكتا ہے، اور ان ميں سے كسى ايك كو راجح كرنے ميں كوئى قرينہ بھى نہ پايا جاتا ہو، تو اس حالت ميں وہ لباس اور كپڑا فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
كيونكہ اصل ميں بيع مباح ہے اور حرام نہيں، اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت حلال كى ہے البقرۃ ( 275 ).
اس ليے يہ لباس اور كپڑا خريدنے والے كو چاہيے كہ وہاں استعمال كرے جہاں اللہ تعالى نے حلال كيا ہے، اور اسے حرام طريقہ سے استعمال كرنا جائز نہيں.
مندرجہ بالا سطور كى تائيد ميں ذيل ميں چند ايك علماء كرام كے فتاوى جات پيش كيے جاتے ہيں:
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
عورتوں كى زيبائش والى اشياء كى تجارت كرنے كا حكم كيا ہے، اور اسے ايسى عورت كو فروخت كرنے كا حكم كيا ہوگا جس كى حالت سے فروخت كرنے والے كو يہ معلوم ہے كہ يہ اسے استعمال كر كے بےپرد ہو كر غير محرم مردوں كے سامنے سڑكوں پر گھومےگى، جيسا كہ اس كى حالت سامنے نظر آ رہى ہو، اور جس طرح كہ بعض علاقوں ميں يہ بيمارى اور مصبت عام ہو چكى ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر تاجر كو يہ علم ہو جائے كہ اس كا خريدار اسے اللہ تعالى كے حرام كردہ كام ميں استعمال كريگا تو اسے فروخت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں گناہ اور برائى اور ظلم و زيادتى پر تعاون ہوتا ہے.
ليكن اگر تاجر كو علم ہو جائے كہ خريدنے والى عورت اس كے ساتھ اپنے خاوند كے ليے بناؤ سنگھار كريگى، يا پھر اسے كچھ علم نہ ہو سكے تو پھر اس كى تجارت كرنا جائز ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 67 ).
فتوى كميٹى كے علماء سے يہ سوال بھى دريافت كيا گيا:
عورتوں كے مخصوص ميك اپ كا سامان اور زيبائش كى اشياء فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ اسے استعمال كرنے والى اكثر عورتيں بےپرد اور فاجر اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان قسم كى عورتيں ہوتى ہيں جو ان اشياء كو اپنى خاوندوں كے علاوہ كسى اور كے سامنے زيبائش اختيار كرنے كے ليے استعمال كرتى ہيں اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر تو معاملہ بالكل ايسے ہى ہو جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے اور جب ان كى حالت سے يہ معلوم ہوتا ہو تو پھر ان كو يہ اشياء فروخت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں معاونت ہوگى اور اللہ سبحانہ وتعالى نے اس سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور تم گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ). انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ ولافتاء ( 13 / 105 ).
اور كميٹى سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:
مختلف قسم كى تنگ اور چست ليڈيز پتلون جسے جينز، اور اسٹرٹش وغيرہ كا نام ديا جاتا ہے فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور اسى طرح پورا سيٹ جو شرٹ اور پتلون اور اونچى ايڑى والے جوتے فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور اسى طرح بالوں كو رنگنے كے ليے مختلف قسم كے رنگ اور كريم خاص كر عورتوں كے ليے مخصوص كى فروخت كا حكم بھى بتائيں ؟
شفاف قسم كا ليڈيز كپڑا يا جسے شيفون كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، اسى طرح آدھے بازو والى فراق اور اس سے بھى چھوٹے بازو يا بغير بازو اور چھوٹے ليڈيز غرارے فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
ہر وہ چيز جو حرام طريقہ پر استعمال كى جاتى ہو، يا غالب گمان ہو كہ يہ حرام ميں استعمال ہوگا؛ تو اسے تيار كرنا اور باہر سے منگوانا اور اسے فروخت كرنا، اور مسلمانوں ميں اس كى ترويج كرنا حرام ہے.
آج بہت سى عورتيں اس ميں پڑ چكى ہيں، اللہ تعالى انہيں صحيح راہ كى طرف ہدايت دے، وہ شفاف اور باريك اور تنگ اور چست اور چھوٹا لباس پہنتى ہيں، اور اس سب كى بنا پر پرفتن جگہيں اور جسم كے اعضاء اور زيبائش والى جگہ اور عورت كے اعضاء بناوٹ غير محرم مردوں كے سامنے عياں ہوتى ہے.
شيخ الاسلام بان تيميہ رحمہ اللہ كا قول ہے:
" ہر وہ لباس جس كے متعلق غالب گمان ہو كہ اسے پہن كر معصيت ميں تعاون ليا جائيگا؛ تو جو شخص اس سے معصيت و نافرمانى اور ظلم ميں مدد اور معاونت حاصل كرے اس كے ليے اسے فروخت كرنا اور اسے سلائى كر كے دينا جائز نہيں.
اسى ليے جس كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ اس كے ساتھ شراب نوشى كريگا اسے روٹى اور گوشت فروخت كرنا مكروہ سمجھا ہے، اور جس كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ يہ خوشبوجات شراب نوشى اور فحاشى ميں استعمال كريگا تو اسے يہ فروخت كرنى مكروہ ہے، اور اسى طرح ہر وہ چيز جو اصل ميں مباح ہو جس اس كے متعلق علم ہوجائےكہ اس سے معصيت و نافرمانى ميں معاونت حاصل كى جائيگى "
تو ہر مسلمان تاجر پر اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا واجب اور ضروى ہے، اور وہ اپنے مسلمان بھائيوں كى خير خواہى كرتے ہوئے وہ صرف وہى چيز تيار كرے يا فروخت كرے جس ميں مسلمانوں كا بھلا اور ان كى خير و بھلائى ہو، اور ہر اس چيز كو ترك كر دے جس ميں مسلمانوں كا نقصان اور انہيں ضرر پہنچتا ہو، اور حرام سے اجتناب كر كے حلال پر ہى اكتفا كرنے ميں غنا اور اللہ كى رضا ہے.
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كريگا اللہ تعالى اس كے ليے چٹكارے كى راہ نكال دےگا، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديگا جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہ ہو الطلاق ( 2 – 3 ).
اور يہى خير خواہى ايمان كا تقاضا بھى ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور مومن مرد اور مومن عورتيں آپس ميں ايك دوسرے كے دوست ہيں وہ نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے روكتے ہيں التوبۃ ( 71 )
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان يہى ہے:
" دين خير خواہى ہے "
صحابہ نے عرض كيا كس كے ليے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ليے، اور اس كے رسول كے ليے، اور مسلمان اماموں اور حكمرانوں كے ليے، اور عام مسلمان لوگوں كے ليے "
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور جرير بن عبد اللہ البجلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس بات پر بيعت كى كہ ميں نماز كى پابندى كرونگا، اور زكاۃ ادا كرونگا، اور ہر مسلمان كے ليے خير خواہى كرونگا "
متفق عليہ
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كى سابقہ كلام:
" اور اس ليے انہوں نے ايسے شخص كے ليے روٹى اور گوشت فروخت كرنا مكروہ سمجھا ہے جس كے متعلق علم ہو جائے كہ وہ اس پر شراب نوشى كريگا … الخ "
سے كراہت تحريمى مراد ہے، جيسا كہ دوسرے مقام پر شيخ رحمہ اللہ كے فتاوى جات سے معلوم ہوتا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 109 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب