ميں نے بعض افراد جس سے ايك نوجوان نے عقد نكاح كرنے والے كے حقوق دريافت كيے اسے يہ كہتے ہوئے سنا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تم پر حرام كى گئى ہيں تمہارى مائيں اور تمہارى لڑكياں اور تمہارى بہنيں اور تمہارے پھوپھياں اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى لڑكياں اور بہن كى لڑكياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہو، اور تمہارى دودھ شريك بہنيں اور تمہارى ساس اور تمہارى پرورش كردہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو ہاں اگر تم نے جماع نہيں كيا تو تم پر كوئى گناہ نہيں .
يہاں اللہ تعالى نے ان ميں فرق كيا ہے جن سے دخول كيا گيا ہے اور جن سے دخول نہيں كيا گيا، اس ليے عقد نكاح كرنے والے كے ليے اس كو چھونا اور جماع كرنا جائز نہيں.
ليكن اس سے قبل ميں نے يہ پڑھا تھا كہ عقد نكاح كرنے والے كے ليے ہر چيز جائز ہے كيونكہ وہ اس كى بيوى ہے، اور اگر رخصتى سے قبل بيوى حاملہ ہو گئى تو بچہ شرعى ہو گا اور اس كو وراثت ملے گى، تو كيا اس جواب دينے والے كا يہ استدلال صحيح ہے ؟
رخصتى سے قبل بيوى كے احكام اور عقد نكاح كے بعد جماع كرنا
سوال: 75026
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ نے جس شخص كا سوال ميں ذكر كيا ہے نا تو اس كا استدلال صحيح ہے اور نہ ہى حكم ميں، كيونكہ اس نے جس آيت سے استدلال كيا ہے وہ آيت تو مرد كے ليے نكاح كى حرمت والى عورتوں كے بيان ميں ہے.
اور اللہ عزوجل نے بيان فرمايا ہے كہ مرد كے ليے ماؤں اور بيٹيوں اور پھوپھيوں سے نكاح كرنا حرام ہے، اور اللہ تعالى نے جن عورتوں سے نكاح كى حرمت بيان كى ہے ان ميں اس عورت كى بيٹى بھى شامل ہے جس سے دخول كيا گيا ہو، اور يہ بھى كہ اگر كسى شخص نے كسى عورت سے نكاح كيا اور اس كى بيٹى بھى ہو تو اس عورت سے دخول كرنے سے قبل ہى اسے طلاق دے دے تو اس كى بيٹى سے نكاح جائز ہے.
ليكن اگر اس نے اس كى ماں سے دخول كے بعد اسے جدا كيا تو اس كى بيٹى سے نكاح كرنا حلال نہيں، بلكہ يہ اس كے ليے ابدى حرام ہو جائيگى.
اس آيت كا معنى تو يہ ہے، اور اس آيت كا اس سے كوئى تعلق نہيں كہ مرد كا جس عورت سے نكاح ہوا ہے اس سے كيا كچھ جائز ہے اور كيا جائز نہيں، بلكہ آيت تو نكاح كى حرمت والى عورتوں كے بيان ميں ہے، اور بيوى كى بيٹى ( جو گود ميں پرورش پا رہى ہے ) سے نكاح كى حرمت اس كى ماں سے دخول كے ساتھ مشروط ہے، اور اگر اس سے دخول نہيں ہوا تو اس كے ليے اس سے نكاح حلال ہے.
اور ہر وہ شخص جس سے كوئى سوال كيا جائے اور اسے جواب نہ آتا ہو اور وہ علم نہ ركھے تو اس كے ليے اس ” مجھے نہيں پتہ ” كہنا واجب اور ضرورى ہے، اور كسى بھى شخص كے ليے جائز و حلال نہيں كہ وہ كوئى ايسى بات كرے جو شريعت نے كہى نہيں ہے، اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كى حلال كردہ كو حرام كرے اور نہ ہى اللہ كى حرام كردہ كو حلال كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم وہ بات مت كرو جس كا علم تمہيں نہيں، يقيناً كان اور آنكھ اور دل ان سب كے متعلق باز پرس ہو گى الاسراء ( 36 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ البتہ ميرے پروردگار نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں اور ہر گناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے كو، اور اس بات كو كہ تم اللہ كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك كرو جس كى اللہ نے كوئى دليل و سند نازل نہيں كى، اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ كےذمہ ايسى بات لگاؤ جس كو تم جانتے نہيں الاعراف ( 33 ) .
دوم:
اور رہا بيوى سے عقد نكاح كرنے والا شخص تو اس كے ليے بيوى سے ہر چيز حلال ہے وہ اس كى بيوى ہے، اور وہ خود اس كا خاوند ہے، اگر وہ فوت ہو جائے تو خاوند اس كا وارث ہو گا، اور اگر خاوند فوت ہو جائے تو بيوى اس كى وارث ہو گى، اور وہ پورے مہر كى حقدار ٹھرےگى.
ليكن جس نے صرف عقد نكاح كيا ہے اور اس كى رخصتى نہيں ہوئى اس كے بہتراور افضل يہى ہے كہ وہ اس سے دخول اس وقت تك مت كرے جب تك اس كا اعلان نہ ہو جائے يعنى رختصى نہ ہو، كيونكہ اعلان سے قبل دخول كرنے ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں.
ہو سكتا ہے بيوى كنوارى ہو اور اس كا كنوارا پن ختم كر دو اور يہ بھى ہو سكتا ہے وہ اس جماع سے حاملہ ہو جائے اور پھر رخصتى سے قبل ہى طلاق ہو جائے يا خاوند فوت ہوجائے تو اس طرح يہ عورت كے ليے مشكل ہو گى اور اس كےخاندان كےليے بھى اور انتہائى طور پر حرج كا شكار ہونگے، اس ليے صرف عقد نكاح كرنے والے كو بغير رخصتى كيے جماع نہيں كرنا چاہيے، بلكہ وہ اس سے بوس و كنار ہو سكتا ہے اور معانقہ كر سكتا ہے، ليكن جماع سے باز رہے اس ليے نہيں كہ ايسا كرنا حرام ہے، بلكہ اس ليے كہ ايسا كرنے سے كئى ايك خرابياں پيدا ہو سكتى ہيں.
مزيد فائدہ كے ليے برائے مہربانى آپ سوال نمبر ( 32151 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
بيوى سے دخول نہ كرنے سے كئى ايك عملى احكام كا تعلق ہے:
جس ميں عدت بھى شامل ہے، چنانچہ جس نے بھى اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دى تو اس پر كوئى عدت نہيں ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو اور پھر ان سے جماع كرنے سے قبل ہى طلاق دے دو تو تم پر كوئى عدت نہيں جو تم شمار كرو، اور انہيں فائدہ دو اور انہيں بہتر طريقہ سے انہيں رخصت كر دو الاحزاب ( 49 ).
اور اس ميں مہر بھى شامل ہے، چنانچہ جوئى كوئى شخص بھى اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دے تو اس كو مقرر كردہ مہر كا نصف مہر ادا كرنا ہو گا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم انہيں ہاتھ لگانے ( يعنى جماع ) سے قبل طلاق دے دو اور ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو مقرر كردہ مہر كا نصف انہيں دو، مگر يہ كہ وہ خود معاف كر ديں، يا وہ معاف كر دے جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے، اور تم معاف كر دو يہ تقوى كے زيادہ قريب ہے البقرۃ ( 237 ).
اور اگر مہر مقرر نہيں كيا گيا تو پھر عورت خاوند كى حسب استطاعت فائدہ دينے كى مستحق ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تم عورتوں كو ہاتھ لگائے بغير ( جماع سے قبل ) اور مہر مقرر كيے بغير طلاق دے دو تو بھى تم پر كوئى گناہ نہيں، ہاں انہيں كچھ نہ كچھ فائدہ دو، خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنى طاقت كے مطابق دستور كے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائى كرنے والوں پر يہ لازم ہے البقرۃ ( 236 ).
اور وفات كى حالت ميں بيوى پورے مہر كى حقدار ہو گى اگر مہر متعين اور مقرر ہو، اور اگر متعين و مقرر نہيں تو اسے مہل مثل ديا جائيگا.
علقمہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ ان سے ايك شخص نے دريافت كيا:
ايك آدمى نے عورت سے شادى كى اور اس كا مہر مقرر نہ كيااور نہ ہى اس سے دخول كيا اور اسى حالت ميں فوت گيا تو كيا حكم ہے ؟
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
اس عورت كو اس جيسى عورتوں كا مہر مثل ملے گا، نہ تو اس ميں كوئى كمى اور نہ ہى زيادتى ہو گى، اور اس عورت پر عدت ہے، اور اسے وراثت ميں بھى حصہ ملے گا ”
تو معقل بن يسار اشجعى كھڑے ہو كر كہنے لگے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بروع بنت واشق ( ہمارے خاندان كى ايك عورت ) كے متعلق فيصلہ بھى اسى طرح فيصلہ فرمايا تھا جس طرح آپ نے كيا ہے ”
چنانچہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بہت خوش ہوئے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2114 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 3355 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1891 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1939 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب