0 / 0
12,16324/03/2020

درود ناريہ

سوال: 7505

اللھم صلى صلاۃ كاملۃ و سلم سلاما تاما على سيدنا محمد الذى ( بعض اسى طرح بولتے ہيں ) تنحل بہ العقد و تنفرج بہ الكرب و تنقضى بہ الحوائج، و تنال بہ الرغائب و حسن الخواتيم و يستسقى الغمام بوجھہ الكريم و على آلہ و صحبہ فى كل لمحۃ و نفس "
مندرجہ بالا كلمات كو ہند و پاك ميں درود ناريہ كہا جاتا ہے، اور جب كسى گھر ميں كوئى حادثہ اور مصيبت ہو تو يہ درورد ( 4444 ) مرتبہ پڑھا جاتا ہے، ان الفاظ كے معانى كيا ہيں ؟
لوگ كہتے ہيں كہ اگر كلمات شرك پر مشتمل نہ ہوں تو اس كو پڑھنے ميں كوئى مانع نہيں، كيونكہ يہ نقصاندہ نہيں اور يہ ذكر كى ايك قسم ميں شامل ہوتے ہيں، اور يہ انہيں اللہ كى ياد دلاتے ہيں، اور ہم ايك اضافى دعا كرتے تا كہ اللہ كا قرب حاصل ہو اور وہ ہم سے كچھ مصائب اور تنگياں ختم كر دے.
ميلاد ميں پڑھنے كا حكم كيا ہے، اور كيا مدرسہ كے طلباء يا امام مسجد كا بارى كے ساتھ كچھ مدت بعد پڑھنے ميں كوئى ضرر و نقصان ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

1 – اس درود ميں وارد شدہ كلمات واضح بدعت ہيں، اس كے متعلق اكثر بيان كرنے ميں كوئى حرج نہيں:

تنحل بہ العقد: اس سے گرہيں كھلتى ہيں، يعنى جن امور كا حل كرنا مشكل ہے اس سے حل ہو جاتے ہيں اور جو مصيبت آتى ہے وہ ٹل جاتى ہے.

اور اس سے غضب ٹھنڈا ہونا بھى مراد ہو سكتا ہے.

" تنفرج بہ الكرب " يعنى اس سے غم و ہم اور پريشانياں دور ہو جاتى ہيں.

" تقضى بہ الحوائج " يعنى وہ حاصل ہوتا ہے جو وہ چاہے اور جس كو پورا كرنے كى كوشش كرے.

" تنال بہ الرغائب و حسن الخواتيم ": يعنى اس كى اخروى اور دنياوى خواہشات پورى ہوتى ہيں، جس ميں خاتمہ بالخير شامل ہے.

" يستسقى الغمام بوجھہ الكريم ": يعنى اس كے ساتھ اللہ سے بارش كے نزول كى دعا كرتے ہيں.

" والغمام ": يعنى بادل.

2 – بعض لوگوں جو آپ كو كہا ہے كہ يہ درود شرك پر مشتمل نہيں، اور آپ كے ليے يہ پڑھنا جائز ہے… الخ ان كى يہ كلام باطل ہے كيونكہ يہ مزعوم درود كئى ايك شرعى مخالفات پر مشتمل ہے مثلا:

ا ـ اس دورد كو مصائب و مشكلات كے وقت پڑھنے كے ليے مقرر كيا گيا ہے، اور يہ اختراع عبادت كےاسباب كى بدعت ايجاد كرنے ميں شامل ہوتى ہے.

ب ـ اس كو ( 4444 ) كے عدد ميں محدود كيا گيا ہے جو عبادت كى كميت ميں بدعت ايجاد كرنا ہے.

ت ـ اسے اجتماعى پڑھنا قرار ديا گيا جو كہ عبادت كى كيفيت ميں بدعت كى ايجاد ہے.

ث ـ اس ميں شريعت مخالفت عبارات پائى جاتى ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں غلو و شرك پايا جاتا ہے، اور ايسے افعال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب ہيں جو اللہ كے علاوہ كسى اور كى طرف منسوب كرنا جائز نہيں مثلا قضائے حاجات، اور مشكلات كا حل، اور رغبتوں كا حصول، اور حسن خاتمہ، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

كہہ ديں ميں تمہارے ليے نہ تو نقصان كا مالك ہوں اور نہ ہى فائدے كا .

ج ـ اس شخص نے شريعت ميں آيا درود اور ذكر ترك كر كے اپنى جانب سے دعاء اور درود اختراع كيا ہے، اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لوگوں كى ضرورت كو بيان كرنے ميں كوتاہى كا بہتان پايا جاتا ہے، اور اس ميں شريعت پر استدراك كا دعوى پايا جاتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2550 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ حديث دين اسلام كے عظيم اصولوں ميں ايك اصول ہے، اور يہ ظاہرى طور پر اعمال كے ليے كسوٹى اور ترازو ہے، جس طرح حديث " انما الاعمال بالنيات " اعمال كے باطن كے ليے كسوٹى ہے اسى طرح يہ ظاہرى كسوٹى ہے، اور پھر جس طرح ہر وہ عمل جو اللہ كے ليے نہ كيا جائے اس كا عمل كرنے والے كو كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہوتا، اسى طرح ہر وہ عمل جس پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے.

اور جس نے بھى كوئى ايسا كام دين ميں ايجاد كر ليا جس كى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اجازت اور حكم نہيں ديا تو اس كا دين سے كوئى تعلق نہيں " اھـ

ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 180 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ حديث دين اسلام كے قواعد ميں سے ايك عظيم قاعدہ ہے، اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جوامع الكلم ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ يہ بدعات اور ايجادات دين كے رد ميں صريح ہے، اور دوسرى روايت ميں اور الفاظ وارد ہيں: وہ اس ليے كہ ہو سكتا ہے كوئى بدعتى شخص جو پہلے سے ايجاد بدعت پر عمل كر رہا ہے جب اس كو يہ پہلى حديث دليل دى جائے كہ:" جو كوئى بھى بدعت ايجاد كرے " تو وہ جواب ديتا ہے ميں نے تو كچھ بھى نئى چيز ايجاد نہيں كى، تو اس كے ليے يہ دوسرى روايت كے الفاظ بطور دليل پيش كئے جائينگے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا " اس حديث ميں صراحت ہے كہ ہر بدعت چاہے وہ اس نے خود ايجاد كى ہو يا پہلے سے ايجاد كردہ پر عمل كر رہا ہو مردود ہے…

اس حديث كو ياد و حفظ كرنا بہت ضرورى ہے تا كہ منكرات و بدعا تكو ختم اور باطل قرار دينے كے ليے اس سے استدلال كيا جا سكے " اھـ

ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 12 / 16 ).

3 – اور ميلاد كے متعلق عرض ہے كہ يہ بدعت ہے، اگر يہ خير و بھلائى ہوتى تو وہ لوگ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے لوگوں ميں سب سے زيادہ محبت كرنے والے تھے وہ اس كى طرف ہم سے سبقت لے جاتے يعنى صحابہ كرام بھى ايسا كرتے، اور ميلاد ميں جو كچھ پڑھا جاتا ہے وہ سيرت نبوى كے متعلق اكثر ضعيف يا پھر موضوع ہوتا ہے، اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق غلو پايا جاتا ہے، ذيل ميں ہم اس كے متعلق علماء كرام كے اقوال پيش كرتے ہيں:

ا ـ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو ہر برس ميلاد النبى كى رات قرآن ختم كرتا ہے كيا يہ مستحب ہے يا نہيں ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

عيدين اور ايام تشريق ميں كھانے كے ليے لوگوں كا جمع ہونا سنت ہے، اور يہ اسلام كے ان شعار ميں شامل ہوتا ہے جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمانوں اور فقراء كو رمضان المبارك ميں كھانا كھلانے كے ليے مسنون كيا ہے اور يہ اسلام كےطريقوں اور سنن ميں سے ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى روزے دار كا روزہ افطار كروايا تو اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہو گا "

اور فقراء قراء كرام كو وہ كچھ دينا جو ان كے قرآن مجيد كى تعليم ميں معاون ہو ہر وقت نيك و صالح عمل ہے، اور جو بھى ان كى اس ميں معاونت كرتا ہے وہ ان كے ساتھ اجروثواب ميں برابر كا شريك ہے.

ليكن انہيں شرعى تہواروں كے علاوہ دوسرے تہوار بنا لينا مثلا جس طرح ربيع الاول كى كچھ راتيں بطور جشن عيد ميلاد النبى منائى جاتى ہيں، يا رجب كى بعض راتيں يا پھر آٹھ ذوالحجہ كى رات، يا رجب كا پہلا جمعہ يا آٹھ شوال جسے جاہل لوگ نيكوں كى عيد كا نام ديتے ہيں، يہ سب ان بدعات ميں شامل ہوتى ہيں جسے نہ تو سلف نے مستحب قرار ديا ہے اور نہ ہى خود ايسا كيا.

واللہ سبحانہ و تعالى اعلم.

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 4 / 415 ).

ب ـ ابن الحاج كہتے ہيں:

اس دور ميں بعض لوگوں نے اس معنى كے مخالف كام كا ارتكاب كرنا شروع كر ديا ہے وہ يہ كہ جب يہ ماہ مبارك يعنى ربيع الاول كا مہينہ تو وہ دف بجانا اور لہو و لعب ميں مشغول ہو جاتے ہيں جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

تو جو كوئى رونا چاہتا ہے وہ اپنے آپ اور اسلام اور اہل اسلام اور سنت پر عمل كرنے والوں كى غربت و اجنبيت پر روئے.

افسوس اگر وہ ترانے اور نظميں بناتے مگر ايسا نہيں بلكہ ان ميں بعض كا گمان ہے كہ وہ ادب و احترام كر رہا ہے، اور قرآن مجيد كى تلاوت سے ميلاد شروع كرتا اور وہ اسے ديكھتے ہيں جو ناچ گانےميں سب سے ماہر ہو، اس ميں جو خرابياں پائى جاتى وہ كئى وجوہات كى بنا پر ہيں:

قارى تلاوت كرنے ميں شرعا مذموم طريقہ اختيار كرتے ہوئے گانے كى طرح پڑھتا ہے اس كا بيان ہو چكا ہے.

دوم:

اس ميں كتاب اللہ كا قلت ادب اور قلت احترام پايا جاتا ہے.

سوم:

وہ قرآن مجيد كى قرآت كا كاٹ كاٹ كر پڑھتے ہيں اور اپنے نفس كى خواہش كى تسكين كرتے ہوئے لہو لعب اور ڈھول باجے بجاتے ہيں جس طرح ايك گانے والا كرتا ہے.

چہارم:

وہ كچھ ظاہر كرتے ہيں جو ان كے باطن ميں نہيں ہوتا اور يہ بعينہ نفاق كى صفت ہے كہ آدمى كے اندر كچھ ہو اور وہ ظاہر كچھ اور كرے، ليكن جس ميں شريعت نے استثناء كيا ہے وہ نہيں وہ اس طرح كہ قرآت كى ابتدا تو كرتے ہيں ليكن ان كا مقصد اور خيالات گانے بجانے والوں سے معلق ہوتے ہيں.

پنجم:

ان ميں سے بعض لہو و لعب كے سبب كى قوت كے باعث بہت ہى كم پڑھتے ہيں، اس كا بيان اوپر ہو چكا ہے.

ششم:

بعض سامعين كا مشغلہ ہوتا ہے كہ جب قارى قرآت لمبى كرے تو وہ شور و غلغلہ كرنا شروع كر ديتے ہيں اور خاموش ہى اس وقت ہوتے جب وہ ان كى خواہش كے مطابق لہو و لعب ميں مشغول نہ ہو جائے، اور يہ اہل ايمان و اہل خشيت كے وصف كا مقتضى نہيں جو اللہ نے بيان كيا ہے، كيونكہ اہل ايمان تو اپنے مولا و آقا پروردگا كا كلام سننے كو پسند كرتے ہيں.

اللہ كا فرمان ہے:

اور جب وہ اسے سنتے ہيں جو رسول كى طرف نازل كيا گيا ہے تو آپ ديكھتے ہيں كہ ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہوتے ہيں اس كے باعث كہ انہوں نے حق كو پہچان ليا وہ كہتے ہيں اے ہمارے رب ہم ايمان لائے اور ہميں گواہى دينے والوں كے ساتھ لكھ دے .

يہاں اللہ تعالى نے اپنى كلام سننے والوں كى صفات بيان كى ہيں.

ان ميلاديوں ميں سے بعض اس كى ضد اور مخالف كام كرتے ہيں جب وہ اپنے رب كى كلام سنتے تو وہ رقص و سرور كرنے لگتے ہيں اور ناچتے ہيں حالانكہ ايسا نہيں كرنا چاہيے تھا انا للہ و انا اليہ راجعون، انہيں گناہ كرتے ہوئے شرم ہى نہيں آتى اور شيطانى عمل كر كے رب العالمين سے اجروثواب حاصل كرنا چاہتے ہيں.

اور وہ اس ميں گمان كرتے ہيں كہ وہ عبادت و خير و بھلائى كے كام ميں مشغول ہيں، كاش اگر ايسا كام بےوقوف اور كم تر قسم كے لوگ كرتے تو كچھ نہ تھا، ليكن يہ وباء اتنى عام ہوئى ہے كہ علم كى طرف منسوب افراد كو بھى آپ اس ميں كودتے ديكھيں گے، اور اسى طرح وہ افراد بھى جنہيں پير اور شيخ كا لقب ديا جاتا ہے اور وہ مربى قسم كے افراد كہلاتے ہيں جو اپنے مريدوں كى تربيت كرتے ہيں وہ بھى اس ميں ہاتھ دھونے كى كوشش ميں لگے ہوئے ہيں.

پھر تعجب تو يہ ہے كہ ان پر شيطانى ہتھكنڈے اور چاليں كيسے مخفى رہى ہيں، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ شرابى جب پہلى مرتبہ شراب نوشى كرتا ہے تو وہ گھنٹہ گھنٹہ سر ہلاتا اور اول فول بكتا رہتا ہے، اور جب شراب اس پر قوى ہو جاتى ہے تو اس كى شرم و حياء اور وقار بھى جاتا رہتا ہے اور سب كے سامنے ہى ننگا تك ہو جاتا ہے.

اللہ ہم اور آپ پر رحم فرمائے اس گانے والے كو ديكھيں جب وہ گاتا ہے تو ہيبت و وقار اور اچھى ہئيت والا اور اہل علم و فن والا شخص بھى اس كے ليے خاموش ہو جاتا ہے، اور جب اسكے ساتھ ساز بجتا ہے تو يہ شخص بھى اپنا سر ہلانے لگتا ہے جس طرح سب شرابى مل كر كرتے ہيں جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.

پھر جب وہ ساز و گانے ميں مگن ہو تو اس كى حياء و وقار بھى جاتا رہتا ہے جيسا شراب نوشيوں كے متعلق بيان ہوا ہے وہ سب كھڑے ہو كر رقص و سرور ميں مشغول ہو جاتے ہيں اور آوازيں كستے اور لہكتے اور روتے رولاتے اور خشوع اختيار كرتے كبھى اندر جاتے اور كبھى باہر نكلتے اور ہاتھ پھيلاتے اور سر اٹھاتے ہيں كہ آسمان سے مدد آ گئى، اور اس كے منہ سے جھاگ نكل رہى ہوتى ہے، اور بعض اوقات تو اپنے كچھ كپڑے بھى پھاڑ ليتا ہے اور اپنى داڑھى كے ساتھ كھيلتا اور نوچتا ہے.

يہ واضح اور ظاہر منكر و برائى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے، اور بلاشك و شبہ كپڑے پھاڑنا اسى ميں شامل ہوتا ہے.

دوم:

ظاہر ميں وہ عقلمندوں كى حد سے خارج ہے كيونكہ اس سے وہ كچھ صادر ہو رہا ہے جوغالب طور پر مجنون اور پاگل قسم كے افراد سے صادر ہوتا ہے.

ديكھيں: المدخل ( 2 / 5 – 7 ).

ج ـ مستقل كميٹى كے علماء كہتے ہيں:

ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانا جائز نہيں كيونكہ يہ نئى ايجاد كردہ اور بدعت ہے، نہ تو اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منايا اور نہ ہى ان كے خلفاء راشدين نے اور نہ ہى ان كے علاوہ پہلى تين صديوں كے علماء كرام نے اور يہ تين دور ہى افضل ترين دور ہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 2 ).

د ـ شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا مسلمانوں كے ليے مسجد ميں بارہ ربيع الاول كى رات ميلاد النبى كى مناسبت سے عيد كى طرح دن كو چھٹى كيے بغير سيرت نبوى كى ياد دہانى كے ليے جشن منانا جائز ہے ؟

ہمارا اس ميں اختلاف ہے كچھ كہتے ہيں يہ بدعت حسنہ ہے اور كچھ اسے بدعت غير حسنہ قرار ديتے ہيں كيا يہ صحيح ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" بارہ ربيع الاول كى رات يا كسى اور وقت ميلاد النبى كا جشن منانا مسلمانوں كے ليے جائز نہيں؛ كيونكہ ميلاد كا جشن منانا دين ميں نئى ايجاد كردہ بدعت ہے؛ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زندگى ميں كبھى ميلاد نہيں منائى تھى حالانہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم دين كے مبلغ اور اللہ سے شريعت كے قوانين لانے والے تھے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميلاد منانے كا حكم ہى ديا.

اور آپ كے بعد خلفاء راشدين نے بھى كبھى ميلاد نہيں منايا اور نہ ہى صحابہ كرام ميں سے كسى صحابى نے، اور ان كے بعد تابعين عظام نے بھى قرون مفضلہ ميں ميلاد نہيں منائى، تو اس سے معلوم ہوا كہ يہ بدعت ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور مسلم كى روايت ميں ہے جسے امام بخارى نے معلقا بالجزم روايت كيا ہے:

" جس كسے نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

ميلاد كا جشن منانے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم نہيں ہے، بلكہ يہ بعد كے ادوار ميں لوگوں نے دين ميں ايجاد كيا جو كہ مردود ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا كرتے تھے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر بات كلام اللہ ہے، اور سب سے بہترين طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور برے ترين امور اس دين كے نئے ايجاد كردہ امور ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اسے مسلم اور نسائى نے روايت كيا ہے.

اور مسلم كى روايت ميں ہے:

" ہر گمراہى آگ ميں ہے "

ميلاد كا جشن منانے كى بجائے يہى كافى ہے كہ مساجد اور مدارس وغيرہ ميں سيرت طيبہ پڑھائى جائے، اور دور جاہليت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ كا مطالعہ كيا جائے، اس ميں بغير كسى ضرورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش اور وفات بھى آ جائيگى، اور اس كے ليے كوئى جشن منانا اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كيا اور نہ ہى اس كى كوئى دليل ملتى ہے…

اللہ تعالى ہى مدد كرنے والا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں كو ہدايت نصيب فرمائے اور سنت نبويہ پر كفائت كرنے كى توفيق اور بدعات سے بچائے "

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 4 / 289 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android