جب ميں مسجد ميں داخل ہوؤں اور امام ركوع كى حالت ميں ہو اور ميں اس كے ساتھ ركوع كر لوں تو كيا ميرى يہ ركعت شمار ہو گى ؟
حالانكہ ميں نے سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھى، اور كيا ميں ايك تكبير كہوں يا كہ دو تكبيريں ؟
اگر امام ركوع ميں ہو تو مقتدى كو كيا كرنا چاہيے ؟
سوال: 75156
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر كوئى شخص مسجد ميں داخل ہو اور امام ركوع كى حالت ميں ہو تو وہ امام كے ساتھ ركوع كر لے تو اس كى يہ ركعت شمار ہو گى جبكہ وہ امام كے ساتھ ركوع ميں مل جائے، چاہے اس نے ركوع ميں اطمنان امام كے ركوع سے اٹھنے كے بعد ہى كيا ہو.
امام ابو داود رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ميں نے سنا كہ امام احمد سے امام كے ساتھ ركوع كى حالت ميں ملنے كى حالت ميں تكبير كہہ كر امام كے ساتھ ركوع كرنے والے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
اگر وہ امام كے ركوع سے اٹھنے سے قبل اپنے ہاتھ گھٹنے پر ركھ لے تو اس نے اسے پا ليا" انتہى.
ديكھيں: مسائل الامام احمد لابى داود صفحہ نمبر ( 35 ) اور حاشيۃ الروض لابن قاسم ( 2 / 275 ) اور المجموع ( 4 / 215 ).
پھر وہ ركوع ميں اطمنان كرے اور ركوع سے اٹھ كر امام كى متابعت كرے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر مقتدى امام كو ركوع كى حالت ميں پالے تو اس كى يہ ركعت ہو جائيگى چاہے اس نے امام كے ركوع سے اٹھنے كے بعد ہى سبحان ربى العظيم كہا ہو" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 245 – 246 ).
دوم:
جب امام كى ركوع كى حالت ميں پائے تو اسے ايك تكبير ہى كافى ہے جو كہ تكبير تحريمہ ہے يہى ركوع كى بھى تكبير ہو گى، يہ زيد بن ثابت، ابن عمر، رضى اللہ تعالى عنہم، سعيد، عطاء، حسن، ابراہيم نخعى رحمہم اللہ سے مروى ہے، اور آئمہ اربعہ ( ابو حنيفہ، مالك، شافعى، احمد ) كا بھى يہى كہنا ہے.
ابو داود رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميں نے امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے كہا: ميں امام كو ركوع كى حالت ميں پالوں تو ؟
امام احمد نے جواب ديا: آپ كو ايك تكبير ہى كافى ہے " انتہى
ديكھيں: مسائل الامام احمد صفحہ نمبر ( 35 ).
يہ اس ليے كہ ركوع كى حالت ميں غالبا دونوں تكبيروں كو جمع كرنا مشكل ہے، اور اس ليے بھى كہ دونوں عبادات ايك ہى جنس اور ايك ہى جگہ ميں ہيں، اور ركوع كى نيت كرنا نماز شروع كرنے كے منافى نہيں، لہذا ركن جو كہ تكبيرہ تحريمہ ہے واجب جو كہ ركوع كى تكبير كے ليے كافى ہو گا، جيسا كہ طواف افاضہ اگر آخر ميں كيا جائے تو طواف واداع سے كافى ہو جاتا ہے "
ديكھيں: المغنى ( 2 / 183 )، اور القواعد لابن رجب، قاعدہ نمبر ( 18 ).
اور اگر دونوں تكبيريں كہنا ممكن ہوں تو يہ اولى ہے، يعنى پہلى تكبير تحريمہ اور دوسرى ركوع كے ليے تو يہ اولى اور بہتر ہو گا.
ابو داود رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ميں نے امام احمد سے كہا: آپ كے نزديك دو تكبيريں كہنا زيادہ پسند ہيں ؟
تو ان كا جواب تھا:
اگر وہ دو بار تكبير كہے تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں " انتہى
ديكھيں: مسائل الامام احمد صفحہ نمبر ( 35 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر مقتدى نماز كے ليے آئے اور امام ركوع كى حالت ميں ہو تو كيا وہ تكبير تحريمہ اور ركوع كى تكبير كہے، يا كہ صرف تكبير كہ كر ركوع ميں چلا جائے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اولى اور احتياط تو اسى ميں ہے كہ وہ دو تكبيريں كہے: ايك تكبير تحريمہ جو كہ ركن ہے، اور يہ تكبير اسے كھڑا ہو كر كہنى ضرورى ہے، اور دوسرى تكبير ركوع كى اس وقت كہے جب وہ ركوع كے ليے نيچے جھكے، اور اگر اسے ركوع چھوٹ جانے كا خدشہ ہو تو پھر علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق تكبير تحريمہ كہنى ہى كافى ہو گى، كيونكہ دونوں عبادتيں ايك ہى وقت جمع ہو گئى ہيں، لہذا بڑى عبادت چھوٹى سے كفائت كرجائيگى، اور اس حالت ميں اكثر علماء كرام كے ہاں اس كى ركعت ہو جائيگى " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 244 – 245 ).
ركوع ميں ملنے والے شخص كے ليے تكبير كھڑے ہو كر كہنا ضرورى ہے اگر وہ ركوع كے ليے جھك كر تكبير كہتا ہے تو اس كا ركوع صحيح نہيں ہو گا.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
" اگر كسى شخص نے امام كو ركوع كى حالت ميں پايا تو وہ كھڑا ہو كر تكبير تحريمہ كہے اور پھر ركوع كى تكبير كہہ كر ركوع ميں چلا جائے، اگر تكبير كا كچھ حصہ كھڑے ہو كر اور كچھ ركوع كے جھك كر كہى جائے تو بغير كسى اختلاف كے اس كى فرضى نماز صحيح نہيں، اور صحيح قول كے مطابق نفلى نماز بھى صحيح نہيں ہو گى " انتہى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 111 ) اور مغنى ( 2 / 130 ) بھى ديكھيں
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
" ليكن يہاں ايك چيز سمجھنى ضرورى ہے، وہ يہ كہ جھكنے سے قبل كھڑے ہو كر تكبير تحريمہ كہنى ضرورى ہے؛ كيونكہ اگر وہ تكبير كہنے كے دوران ہى ركوع كے ليے جھك جائے تو اس نے تكبير تحريمہ كھڑے ہو كر نہيں كہى، اور تكبير تحريمہ كھڑے ہو كر كہنا ضرورى ہے" انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 123 ).
سوم:
اور جب مقتدى امام كے ساتھ ركوع كر لے تو اس كى ركعت ہو جائيگى چاہے اس نے فاتحہ نہ بھى پڑھى ہو، جمہور علماء كرام كا قول يہى ہے، اور ان شاء اللہ راجح بھى يہى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ صف ميں پہنچنے سے قبل ہى ركوع كر كے صف ميں ملنے كى حالت كا علم ہونے پر انہيں فرمايا تھا:
" اللہ تعالى آپ كى حرص اور زيادہ فرمائے، آئندہ ايسا نہ كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 783 ).
وجہ الدلالت يہ ہے كہ: اگر امام كے ساتھ ركوع پالينے سے ركعت نہ ملتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے يہ ركعت دوبارہ ادا كرنے كا كہتے جس ميں انہوں نے قرآت نہيں كى تھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم سے يہ منقول نہيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ جس نے ركوع پا ليا اس نے ركعت پا لى.
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 230 ).
امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امام كے ساتھ بعد ميں ملنے والے كو حكم ديا ہے كہ وہ اسى طرح كرے جو امام كر رہا ہو، اور يہ تو معلوم ہے كہ اس پر عمل تو اسى وقت ہو سكتا ہے جب وہ امام كے ساتھ ركوع كرے، اور اگر وہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا شروع كر دے تو اس نے امام كو جس حالت ميں پايا اس پر عمل نہيں كيا، لہذا اسے جس پر عمل كرنے كا حكم تھا اس نے اس كى مخالفت كى " انتہى
ماخوذ از: عون المعبود ( 3 / 157 ).
اور سورۃ الفاتحہ پڑھنے كى وجوب كے دلائل عام ہيں، وہ مسبوق اور غير مسبوق يعنى نماز كى ابتدا ميں اور دوران نماز شامل ہونے والے سب كو شامل ہيں، اور يہ حديث ركوع كى حالت ميں امام كو پانے والے سے سورۃ الفاتحہ ساقط ہونے ميں خاص ہے، تو اس طرح يہ حديث ان احاديث كى تخصيص كرتى ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 290 ).
اور سوال نمبر ( 74999 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ مقتديوں سے دو جگہ ميں سورۃ الفاتحہ ساقط ہو جاتى ہے:
1 – جب امام كو ركوع كى حالت ميں پائے.
2 – جب امام كے ساتھ ركوع سے كچھ دير قبل ملے اور سورۃ الفاتحہ پڑھنى ممكن نہ ہو.
ديكھيں: احكام حضور المساجد صفحہ نمبر ( 141 – 143 ) تاليف عبد اللہ بن صالح الفوزان.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات