ميرى آپ سے گزارش ہے كہ ميں آپ كے سامنے ايك بڑا معاملہ پيش كر رہا ہوں اس كے متعلق فتوى جارى كريں، ميرے سوال جيسے سوال كا جواب تو ہے ليكن ميں مزيد كئى امور كى وضاحت چاہتا ہوں، اس ليے آپ اس بنا پر جواب دينا ترك نہ كريں.
ميں كئى برس قبل حقوق كالج سے فارغ ہوا ہوں اور اب ايك وكيل كى حيثيت سے كام كر رہا ہوں، كالج ميں داخلہ ليتے وقت ميں دينى معاملات ميں كوئى بصيرت نہيں ركھتا تھا، پھر كالج سے فارغ ہونے كے بعد مجھے اللہ كے دين كے علاوہ كوئى اور قانون نافذ كرنے كے گناہ كا علم ہوا تو ميں نے ديكھا كہ ميرے ملك ميں تو اكثر قوانين اللہ كى شريعت كے مخالف ہيں، اور اس كى حدود سے تجاوز كرتے ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اس حالت ميں ميرا وكيل كے پيشہ كو اختيار كيے ركھنا جائز ہے كيونكہ اس ميں اللہ كى شريعت كے علاوہ كسى اور كے سامنے مقدمہ پيش كيا جاتا ہے ؟
اور كيا وكالت كا پيشہ اختيار كرنے سے شريعت كے مخالف اور ظالم قوانين كا گناہ مجھے بھى ہو گا ؟
ليكن ميں آپ سے اپنے معاملہ ميں فتوى لينے سے قبل آپ كے سامنے كچھ امور ـ چاہے وہ صحيح ہوں يا غلط ـ پيش كرنا چاہتا ہوں، تا كہ آپ كو معلوم ہو سكے ميں ميرے اندر كي سوچ كيا ہے تا كہ آپ ـ اللہ كے حكم سے ـ ميرى صحيح راہنمائى كر سكيں، ميں شريعت كے مخالف قانون سے كبھى راضى نہيں، چاہے اس كے پيچھے كتنى بھى امتيازى حيثيت حاصل ہو، اور وكالت كا پيشہ اختيار كرتے وقت ميں حسب استطاعت اللہ تعالى كى شريعت كے مخالف قوانين سے دور رہتا ہوں، اور اگر مجھے كوئى ايسا مقدمہ ملے جس ميں مجھے شريعت كے مخالف كوئى قانون استعمال كرنا پڑے تو ميں اسے قبول ہى نہيں كرتا چاہے مجھے اس كا معاوضہ كتنا بھى زيادہ مل رہا ہو.
اگر ميں يہ ظالمانہ قوانين حق كے حصول كے ليے استعمال كروں نہ كہ باطل كے حصول كے ليے تو كيا ميں نے غير شرعى قوانين كے مطابق فيصلہ كروا رہا ہوں ؟
مثلا اگر ميں نے ٹيكس اور جرمانوں اور سزا كے متعلق خاص قوانين كا سہارا ليا ـ جو كہ غالبا حدود اللہ كے احكام كے مخالف ہيں ـ تا كہ ميں كسى كا سلب كردہ مال واپس دلوا سكوں، يا جس پر يہ قوانين لاگو كر كے اس كا مال سلب كرنے كا ارادہ ہو تو كيا پھر بھى گناہ ہو گا ؟
ميں نے جو امور آپ كے سامنے بيان كيے ہيں جو ميرے دل ميں جوش مار رہے ہيں ان كے بعد بھى وكالت كا پيشہ اختيار كرنا اور شريعت كے مخالف امور سے دور رہنا بھى اللہ تعالى كى شريعت كے علاوہ كسى اور كے سامنے اپنے مقدمات پيش كرنا كہلائےگا، صرف حقوق كے حصول كے ليے ہى وضعى قوانين كا سہارا لينا بھى صحيح نہيں ؟
اور كيا قانونى كتب پڑھنا اور اس پر مال خرچ كرنا وقت اور مال كا ضياع شمار ہوتا ہے ؟
اور كيا صرف يہ پڑھائى ـ اگر فرض كريں كہ ميں اس پيشہ كو نہ اپناؤں ـ اپنے ملك ميں نافذ كردہ قوانين اور نظام كو معلوم كرنے كے ليے ہو ـ چاہے وہ شريعت كے مخالف ہو يا موافق تو كيا پھر بھى حرام ہو گى ؟
كيا اس سب كچھ كے بعد ميں وكالت كا پيشہ بغير كسى افوس كے ترك كردوں، اور اپنى اكثر كتابيں جلا دوں، يا كہ اسے ايك جانبى چيز سمجھ كر لوں ـ اور اساسى اور بنيادى روزى كسى اور طريقہ سے كماؤں ـ اور اس سے شريعت كے غير مخالف قوانين ميں اپنى اور دوسرے لوگوں كى ضروريات پورى كروں، اور اپنے حقوق حاصل كريں، اپنے اوپر لاگو قوانين كو معلوم كريں تا كہ ہميں كوئى تكليف نہ ہو، يا پھر شرعى طور پر معتبر مصالح ميں سے كوئى حقوق ہم سے نہ چھن سكيں ؟
وكالت كا پيشہ اختيار كرنا
سوال: 75613
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى تكليف اور مصيبت ختم كرے اور آپ كو غم سے نجات دلائے اور آپ كو زيادہ اجر دے، آپ وكالت كا پيشہ اختيار كرنے كے متعلق جو كچھ پوچھ رہے ہيں اس كا بيان سوال نمبر (9496 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.
وكالت كا پيشہ فى ذاتہ حرام نہيں؛ كيونكہ اس پيشہ ميں اللہ تعالى كى نازل كردہ كے علاوہ كى تنفيذ نہيں، بلكہ يہ تو مقدمہ ميں وكالت اور نيابت ہے، جو كہ جائز وكالت ميں شامل ہوتى ہے، ليكن وكيل كو چاہيے كہ وہ مقدمہ لڑنے سے قبل اس معاملہ كو اچھى طرح ديكھ لے كہ آيا وہ صحيح بھى ہے يا نہيں، اور اگر وہ دعوى سچا ہو اور اس كا حق مسلوب ہوا ہو اور اس پر واقعتا ظلم ہوا ہو تو پھر آپ كے اس كى جانب سے مقدمہ لڑنا اور اسے اس كا حق دلانا، اور اس سے ظلم كا خاتمہ كرناجائز ہے، اور يہ نيكى و بھلائى ميں تعاون ميں شامل ہو گا.
ليكن اگر وہ مقدمہ اور معاملہ ايسا ہے جس ميں كسى دوسرے كا حق سلب كيا جارہا ہو اور ان پر زيادتى ہوتى ہو تو پھر آپ كے ليے وہ مقدمہ لڑنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس مقدمہ كى وكالت قبول كرنى جائز ہے؛ كيونكہ يہ ظلم و زيادتى اور گناہ و معصيت ميں تعاون شمار ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے گناہ و معصيت معاونت كرنے والے كو گناہ و سزا كى وعيد سناتے ہوئے فرمايا ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
آپ كے مزيد اطمنان كے ليے ہم اس مسئلہ ميں كچھ اہل علم كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:
1 – شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
وكالت كا پيشہ اختيار كرنے ميں شريعت اسلاميہ كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” وكالت كا پيشہ اختيار كرنے ميں مجھے تو كوئى حرج معلوم نہيں؛ كيونكہ يہ دعوى ميں وكالت اور اس كا جواب ہے، جبكہ وكيل حق كا متلاشى ہو، اور سب وكلاء كى طرح عمدا جھوٹ نہ بولے ”
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 505 ).
2 – شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
وكالت كے پيشہ كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، ميں عدالت ميں ان تجارتى مقدموں كى پيروى كرتا ہوں جن ميں سود كا شبہ ہوتا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” بلا شك كسى دوسرے كى جانب سے مقدمہ ميں نيابت كرنے ميں كوئى حرج والى بات نہيں، ليكن مقدمہ كى نوعيت كو ديكھا جائيگا:
1 – اگر تو وہ حق ہو اور نائب تو صرف اپنے پاس پائے جانے والے حقائق پيش كرے جس ميں كوئى جھوٹ اور جعل سازى اور حيلہ بازى نہ ہو، اور وہ صاحب مقدمہ كى نيابت كر رہا ہو تا كہ اس كے دعوى كے دلائل پيش كر سكے، يا ان كے ساتھ اس كا دفاع كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
2 – ليكن اگر وہ معاملہ اور مقدمہ باطل ہو، يا پھر نائب اور وكيل كسى باطل چيز كے ليے لڑ رہا ہو تو يہ جائز نہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہيں:
اور آپ خيانت كرنے والوں كے حمايتى نہ بنيں النساء ( 105 ).
اور ہم سب يہ جانتے ہيں كہ اگر مقدمہ اور معاملہ حق ہو اور اس ميں كسى بھى قسم كا جھوٹ اور فراڈ استعمال نہ كيا گيا ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب معاملہ والا كمزور ہو اور اپنا دفاع نہ كر سكتا ہو، يا اپنے حق كو ثابت كرنے كے ليے دعوى نہ كر سكتا ہو، تو كسى اور شخص كا نائب بننا جو اس سے طاقتور ہو شرعا جائز ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تو اگر وہ جس پر حق ہے وہ بے وقوف ہو يا كمزور يا وہ لكھوانے كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اس كا ولى عدل و انصاف كے ساتھ لكھوائے .
تو كسى كمزور اور ضعيف شخص كا حق دلوانے كے ليے، يا پھر اس سے ظلم كو روكنے كے ليے اس كا نائب بننا ايك اچھى چيز ہے، ليكن اگر معاملہ اس كے خلاف ہو يعنى اس مقدمہ ميں كسى باطل كى معاونت ہوتى ہو، يا پھر ظلم كا دفاع كيا جائے، يا كھوٹى اور جعلى دلائل پيش كيے جائيں اور وكيل يا نائب جانتا ہو كہ يہ مقدمہ اصل ميں باطل ہے، اور كسى حرام كام مثلا سود وغيرہ ميں نيابت كرنى جائز نہيں.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى باطل ميں نائب يا وكيل بنے، اور نہ ہى سودى معاملات ميں وكالت كرنى چاہيے كيونكہ يہ سود كھانے ميں معاونت ہے، اور لعنت ميں شامل ہوتى ہے.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 3 / 288 ).
دوم:
اور يہ كہ آپ ايسے ملك ميں رہتے ہيں جہاں اللہ تعالى كى شريعت كے مطابق فيصلے نہيں ہوتے، اور بشرى قوانين كا نفاذ ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ وكالت كا پيشہ حرام ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وكالت كا پيشہ اس ليے اختيار كيا جائے كہ حق كا حصول كيا جائے، اور لوگوں سےظلم روكا جائے، كيونكہ مظلوم شخص اپنا حق حاصل كرنے كے ليے ان بشرى قوانين كے مطابق فيصلہ كروانے پر مجبور ہے، وگرنہ لوگ ايك دوسرے كو كھا جائيں، اور معاشرہ ميں بدنظمى پيدا ہو جائے.
ليكن اگر قانون نے اس كے حق ميں اس كے حق سے زيادہ فيصلہ ديا تو پھر اس كے ليے زيادہ لينا حرام ہے، بلكہ وہ صرف اپنا حق لے سكتا ہے، اور اپنا حق لينے اور ظلم روكنے كے ليے ان قوانين كا سہارا لينے ميں مظلوم كو كوئى گناہ نہيں، اور نہ ہى وكيل پر كوئى گناہ ہے جو مقدمہ ميں اس كى طرف سے نيابت كر رہا ہے تا كہ ان قوانين كے مطابق فيصلہ كيا جائے، بلكہ گناہ تو اس پر ہے جس نے اللہ كى شريعت كے بدلے ان قوانين كو لاگو كيا اور لوگوں پر اسے لازم كيا اور اس كے مطابق فيصلہ كروانے كا كہا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب ” الطرق المكميۃ ” كے صفحہ نمبر ( 185 ) ميں اس كى طرف اشارہ بھى كيا ہے.
اس ليے ہم آپ كو يہ پيشہ ترك كرنے كى نصيحت نہيں كرتے، بلكہ ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ كام جارى ركھيں، اور ہميشہ اپنا معيار بلند كرنے كے ليے كتابوں كا مطالعہ كريں، اور بڑے بڑے وكيلوں سے بھى تعليم حاصل كريں، كيونكہ لوگ ايك امانتدار اور مخلص وكيل كے محتاج ہيں جو ان كے مقدمات لڑے اور انہيں ظلم سے بچائے اور ان كے حقوق ان كو واپس دلائے.
ليكن آپ كا ہميشہ مقصد يہ ہو كہ مظلوم كى مدد و نصرت اور معاونت كرنى ہے، اور اسے اس كا حق دلانا ہے، آپ كو خوشى ہونى چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص كسى مظلوم شخص كے ساتھ چلا حتى كہ اس كا حق اسے مل جائے تو اللہ تعالى اس كے قدم پل صراط پر ثابت ركھے گا جس روز قدم ڈگمگا جائينگے ”
اسے ابن ابى الدنيا نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ميں حسن قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات