ميں نے ايك فتوى جات كى ويب سائٹ پر پڑھا ہے كہ ايك نوجوان نے لڑكى كے ساتھ دخول كے علاوہ باقى سب اعمال زوجيت كيے، تو دين اسلام ميں اس كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا اس پر زنا كى حد ہو گى ؟
اور كيا يہ شمار ہو گا كہ اس نے لڑكى كے ساتھ زنا كيا ہے ؟
اور كيا اس لڑكى كے ساتھ اس كى شادى كفارہ شمار ہو گى ؟
اور اسے توبہ كرنے كے ليے كيا كرنا ہوگا ؟
تو اس ويب سائٹ كا جواب تھا يا مجھے يہ سمجھ آئى ہے كہ: اسے زانى شمار كيا جائيگا، كيونكہ جرم كا اقدام كرنا بھى اسے سرانجام دينے كى طرح ہى ہے.
حد لاگو ہونے والا زنا
سوال: 76052
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زنا ميں حد جارى ہونے كے ليے دخول شرط ہے، اور وہ اس طرح ہے كہ عضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى فرج ميں داخل ہو جائے تو زنا شمار ہو گا، اور اگر وہ داخل نہ كرے، يا پھر اگلے حصہ ميں سے كچھ داخل ہوا تو اس پر حد نہيں.
فقھاء كے ہاں زنا كى حد كےمتعلق متفقہ شروط كے بارہ ميں الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فقھاء كے مابين زنا كى حد ميں يہ متفقہ شرط ہے كہ عضو تناسل كا اگلا حصہ، يا اس كے كٹے ہوئے ميں سے كچھ حصہ عورت كى فرج ميں داخل ہو تو حد جارى ہو گى، اور اگر اس نے بالكل داخل ہى نہ كيا ، يا پھر اس ميں سے كچھ حصہ داخل كيا تو اس پر حد نہيں كيونكہ اس نے وطئ نہيں كى، اور اس ميں انزال كى شرط نہيں، اور نہ ہى داخل كرنے كے وقت انتشار اور كھڑا ہونے كى شرط ہے، چاہے انزال ہوا ہو يا نہ حد واجب ہو گى، اس كا عضو تناسل كھڑا ہو يا منتشر ہو يا نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 23 ).
دوم:
زنا كى مباديات اور شروعات مثلا بوس و كنار، اور دخول كے بغير شرمگاہ كے ساتھ شرمگاہ لگانا، يہ سب كچھ زنا كا حكم نہيں ليتے، اور نہ ہى ايسا كرنے والے پر زنا كى حد جارى ہوگى، ليكن اسے تعزير لگائى جائيگى، اور اسے ادب سكھايا جائيگا؛ كيونكہ اس نے واضح طور پر حرام كام كا ارتكاب كيا ہے.
اور اس ليے كہ ان اعمال اور مباديات كے نتيجہ ميں حقيقى زنا تك پہنچا جاتا ہے اسى بنا پر شريعت نے ان اعمال كو زنا كا نام ديا ہے، جيسا كہ درج ذيل بخارى اور مسلم شريف كى حديث ميں ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ اللہ تعالى نے ابن آدم پر زنا ميں سے اس كا حصہ لكھ ركھا ہے وہ اسے لازمى اور لامحالہ طور پر پا كر رہےگا، تو آنكھ كا زنا ديكھنا ہے، اور زبان كا زنا بولنا ہے، اور دل خواہش كرتا اور چاہتا ہے، اور شرمگاہ اس سب كچھ كى تصديق كرتى ہے، يا پھر تكذيب كر ديتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6243 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2657 ).
ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ديكھنے اور بولنے كا نام زنا اس ليے ركھا گيا ہے كہ يہ حقيقى زنا كى دعوت ديتے اور زنا كى طرف لے جانے والے ہيں، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اور شرمگاہ اس سب كچھ كى تصديق كرتى ہے يا پھر تكذيب " انتہى.
ماخوذ از فتح البارى.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 81995 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
جس شخص سے يہ كام ہو جائيں اس پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں سچى اور پكى توبہ كرے، اور وہ اس طرح ہو گى كہ فورى طور پر وہ يہ اعمال ترك كردے، اور اس كے فعل پر نادم ہو، اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كرے، اور اس تك لے جانے والے سب اسباب مثلا خلوت، ديكھنا اور مصافحہ كرنا وغيرہ كو چھوڑ دے.
رہا اس لڑكى سے شادى كرنا تو اگر وہ لڑكى عفت و عصمت والى ہے اور اس نے زنا كا ارتكاب نہيں كيا، يا وہ اس سے دوچار ہو چكى ہے، اور پھر اس نے اللہ تعالى كے سامنے توبہ كر لى ہے تو پھر اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور ہميں تو اس كى كوئى دليل نہيں ملى جس سے يہ علم ہوتا ہو كہ اس لڑكى سے شادى كرنا اس معصيت و گناہ كا كفارہ بن جائيگا، بلكہ اس كا كفارہ تو اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرنا، اور اعمال كى اصلاح كرنا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور يقينا بلا شبہ ميں اس شخص كو بخشنے والا ہوں جو توبہ كر كے ايمان لے آتا ہے، اور نيك و صالح اعمال كرتا ہے، اور پھر ہدايت پر آجاتا ہے طہ ( 82 ).
چہارم:
مطلقا يہ كہنا كہ كسى جرم كا اقدام كرنا اس كے فعل اور مرتكب ہونے كى طرح ہى ہے يہ صحيح نہيں، بلكہ اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے:
تو جس شخص نے كسى برائى اور معصيت كا ارادہ كيا اور پھر اس ارادہ كو ترك كر ديا تو اسے اس كا اجروثواب حاصل ہوگا، جيسا كہ ابن عباس سے مروى درج ذيل حديث قدسى سے ثابت ہوتا ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے روايت كرتے ہوئے فرمايا:
بلا شبہ اللہ تعالى نے نيكياں اور برائياں لكھ ركھى ہيں، پھر اسے بيان كيا تو جس شخص نے بھى كسى نيكى كا ارادہ كيا اور اس نيكى كو سرانجام نہ ديا تو اللہ تعالى اپنے پاس اس كے ليے ايك پورى نيكى لكھ ليتا ہے، اور اگر اس نے اس كا ارادہ كر كے اس نيكى كو سرانجام بھى دے ديا تو اللہ تعالى اسے اپنے پاس دس نيكيوں ليكر كر سات سو اور اس سے بھى زيادہ لكھ ليتا ہے.
اور جس نے برائى كا ارادہ كيا اور اس برائى پر عمل نہ كيا تو اللہ تعالى اپنے پاس اس كے ليے ايك نيكى لكھ ليتا ہے، اور اگر وہ اس برائى كو سرانجام دے ليتا ہے تو اللہ تعالى اپنے پاس اسے ايك برائى ہى لكھتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6491 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 131 ).
اور اگر اس نے برائى كا ارادہ اور عزم كيا اور اس برائى كو شروع بھى كر ليا، يا پھر اسے حاصل كرنے كى كوشش كى ليكن وہ كسى وجہ سے اسے سرانجام نہ دے سكا، تو اسے اس جرم كا گناہ ہوگا، اور اجر نہيں ملے گا جيسا كہ حديث سے ثابت ہوتا ہے:
" جب دو مسلمان ايك دوسرے سے تلوار كے ساتھ لڑتے ہيں، تو قاتل اور مقتول دونوں آگ ميں ہيں.
صحابى كہتے ہيں: ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ تو قاتل تھا، اور مقتول كس ليے جہنم ميں جائيگا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيونكہ وہ اپنے ساتھ كو قتل كرنے پر حريص تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 31 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 2888 )
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" تو اس سے ارادہ كى بنا پر مؤاخذہ كے مسئلہ ميں نزاع كا فيصلہ ہو جاتا ہے، تو بعض لوگوں نے كہا ہے كہ:
اگر اس نے عزم كر ركھا ہو تو اس كا مؤاخذہ ہوگا، اور بعض كہتے ہيں كہ: اس كا مؤاخذہ نہيں ہوگا.
تحقيق يہى ہے كہ اگر ارادہ عزم ميں بدل كر پختہ عزم بن جائے تو اس كے ساتھ قول يا فعل كا ملنا ضرورى ہے؛ كيونكہ قدرت اور استطاعت كے ساتھ ارادہ اس چيز كو مقدور ميں كر ديتا ہے.
اور جن لوگوں نے يہ كہا ہے كہ اس سے اس شخص كا مؤاخذہ ہوگا انہوں نے اس حديث سے استدلال كيا ہے:
" جب دو مسلمان اپنى تلوار كے ساتھ ايك دوسرے سے لڑتے ہيں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ ميں ہيں " الحديث.
اور اس ميں كوئى دليل نہيں ( يعنى صرف ارادہ پر مؤاخذہ كى كوئى دليل نہيں ہے )؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان دو شخصوں كا ذكر كيا ہے جو ايك دوسرے سے لڑتے اور ايك دوسرے كو قتل كرنے كى كوشش كرتے ہيں، تو يہ صرف عزم اور ارادہ نہيں، بلكہ يہ تو عزم كے ساتھ مقدور فعل كو سرانجام دينے كا كوشش ہے، ليكن وہ اپنى مراد پورى كرنے سے عاجز ہے، اور مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ اس شخص كا مؤاخذہ ہوگا.
تو جو شخص شراب پينا چاہے اور پھر اپنے عمل اور قول سے اس كى كوشش بھى كرے، ليكن وہ اس سے عاجز رہے تو اس كے گنہگار ہونے پر مسلمانوں كا اتفاق ہے، وہ شراب پينے والے كى طرح ہى ہے، چاہے اس نے پى نہيں.
اور اسى طرح جس اپنے قول اور عمل كے ساتھ زنا اور چورى وغيرہ كرنا چاہى تو تو سرانجام دينے والے كى طرح ہى گنہگار ہوگا، اور اس طرح قتل كرنے والا بھى ہے " انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى ( 14 / 122 ).
اور يہ تو آخرت ميں گناہ كے حصول اور سزا كے مستحق ہونے كے اعتبار سے ہے، ليكن اس معصيت كى بنا پر دنيا ميں ملنے والى سزا مثلا زنا كى حد تو يہ حد اور سزا صرف اسے ہى دى جائيگى جس نے حقيقى زنا كيا ہو، نہ كہ جس نے زنا كى كوشش كى اور پھر زنا كرنے سے عاجز رہا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب