ميرى بيوى پردہ نہيں كرتى، حالانكہ وہ پختہ اور شديد ايمان كى مالكہ ہے، اور بروقت اور پابندى سے نمازيں ادا كرتى ہے …. الخ.
ميں اور ميرى بيوى انجيئر ہيں، اور ہمارى دو بيٹياں ( ايك پانچ برس كى اور دوسرى دو برس كى ہے ) ہيں مجھے يہ پريشانى اور خدشہ لاحق رہتا ہے كہ بچياں بھى پردہ نہيں كرينگى كيونكہ انكى والدہ بھى پردہ نہيں كرتى، ميں نے كئى بار بيوى كو پردہ كے متعلق قائل كرنے كى كوشش كى ہے ( اس كے متعلق ميں نے آيات بھى پڑھى ہيں ) ليكن جب اس نےانكار كر ديا تو ميں اس سے رك گيا ہوں، اب مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
ميرا سوال يہ ہے كہ: ميں ايك خاوند اور باپ ہوتے ہوئے كيا اسے كسى بھى طريقہ سے پردہ كرنے پر مجبور كر سكتا ہوں، تا كہ اپنى بچيوں كے مستقبل كو محفوظ بنا سكوں، يا كہ مجھے صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے حتى كہ بيوى كو اللہ تعالى ہدايت نصيب فرمائے ؟
دوسرا سوال يہ ہے كہ: كيا ہم ( اولاد كے باپ ) اللہ تعالى كے ہاں اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں كو پردہ كروانے كے ذمہ دار ہيں يا نہيں ؟
بيوى پردہ نہيں كرتى اور باپ كو چھوٹى سى بيٹى كا خدشہ لاحق ہے
سوال: 7721
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انسان پر قوت ايمانى كا ظہور اس كى زندگى اور اس كے سلوك پر ضرورى ہے، اور كسى انسان كا معصيت و نافرمانى پر اصرار كرنا اس كے ضعف ايمان كى دليل ہے.
آپ پر واجب ہے كہ آپ بيوى كے دل ميں ايمان پيدا كرنے اور اسے قوى كرنے كى كوشش كريں، اس ايمان سے مراد وہ ايمان ہے جو مومن شخص كو عمل اور شرعى سلوك اختيار كرنے پر ابھارے اور تيار كرے، پھر آپ اس ميں پردہ اور نيك و صالحہ اعمال سےمحبت ركھنے پر تيار كريں.
اس ميں يہ شامل ہے كہ آپ اس كے سامنے پردہ كے فوائد اور اس كى خوبياں بيان كريں، اور پردہ نہ كرنے كى خرابياں بھى بتائيں، اور بيوى كو كچھ ايسى كتابيں اور پملفٹ اور كيسٹ وغيرہ ديں جس ميں پردہ كے موضوع پر بحث كى گئى ہو، اور اس كے بہترين وسائل ميں جو آپ كے ليے بہت ثابت ہو سكتا ہے وہ يہ كہ آپ بيوى كو ايسى عورتوں سے ملائيں اور رابطہ كروائيں جو نيك و صالحہ اور مكمل باپرد ہوں. ( ليكن يہ سب كچھ بالواسطہ كريں ) اور نيك و صالح رشتہ داروں سے كثرت كے ساتھ خاندانى ملاقات كريں.
اس كے بعد تقريبا آپ بيوى كو قائل كرنے كے وسائل تيار كر سكيں گے، اس ليے آپ كسى مناسب طريقہ سے بيوى پر پردہ لازم كريں، اور اسے بغير پردہ كيے گھر سے باہر نكلنے كى اجازت نہ ديں.
( اور سب سے اہم يہ ہے كہ آپ ابھى سے بچيوں كے سامنے پردہ كى فرضيت اور اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم بيان كريں، اور انہيں سمجھانا شروع كر ديں چاہے وہ يہ سمجھے كہ اس كى ماں اسميں كوتاہى كر رہى ہے آپ بيٹى كے سامنے اس كى تشريح اور وضاحت ايسے طريقہ سے كريں جو اس كى عقل كے مطابق ہو اور شرعى حكم نظرى اور اس كى والدہ كا اس حكم كے مخالف سلوك كا تناقض بيان كرے، اور كون جانتا ہے كہ ہو سكتا ہے وہ بچى اپنى ماں كو پردہ كرنے كى نصيحت بچوں كے ايسے طريقہ سے كرے جو موثر ہو ).
رہا دوسرا سوال تو اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ والد اپنى بيوں اور بيٹى كو پردہ نہ كروانے كے ذمہ دار ہيں، اور انہيں اس كا جواب دينا ہو گا، اور اسى طرح انہيں شرعى احكام كى پابندى كروانے كے بھى ذمہ دار ہيں جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں .
اور جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے اس كى رعايا كے بارہ ميں باز پرس ہو گى، حكمران ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور آدمى اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا…..”
ليكن جب انسان اسباب پيدا كرتا اور اس كى كوشش بھى كرتا ہے اور پھر اسے توفيق حاصل نہ ہو تو وہ اللہ كے ہاں معذور ہے، اور اسے سزا نہيں ديگا، بلكہ اسے اس كے عمل اور اجتھاد اور كوشش كا اجر و ثواب ديگا اور اللہ تعالى نيك و صالح علم كرنے والے كا اجر ضائع نہيں كرتا.
ماخذ:
كتبہ: الشيخ محمد الدويش