0 / 0

پاخانہ كى جگہ وطئ كرنا حرام ہے چاہے درميان ميں حائل بھى ہو پھر بھى حرام ہوگا

سوال: 77514

كنڈوم چڑھا كر بيوى سے پاخانہ والى جگہ وطئ كرنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ اس طرح بيوى كو خاوند كا مادہ منويہ نہيں جاتا، كيا ايسا كرنا حلال ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

دبر يعنى پاخانہ والى جگہ ميں وطئ كرنا ان كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے جسے شريعت اسلاميہ نے حرام كيا ہے، اور اس كى حرمت بہت شديد آئى ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 1103 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

حرام وطئ يہ ہوگى كہ عضو تناسل كا سرا پاخانہ والى جگہ ميں چلا جائے چاہے حائل بھى درميان ميں ہو يا بغير حائل كے ہو، اور چاہے انزال نہ بھى ہو پھر بھى حرام ہے، كيونكہ يہاں حكم تو دخول اور غائب ہونے سے معلق ہے، انزال يا مباشرت كے ساتھ حكم معلق نہيں، اس ليے اگر كنڈوم چڑھا كر بھى كيا جائے تو بھى حرام ہوگا.

سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" چاہے كپڑا ہو يا نہ ہو اس سے دخول ميں كوئى فرق نہيں " انتہى

ديكھيں: الاشباہ و النظائر ( 458 ).

اور پھر فقھاء كرام نے حائضہ عورت كے ساتھ وطئ كرنے كى حرمت بيان كى ہے چاہے درميان ميں حائل ہى كيوں نہ ہو.

" اور اسى طرح ( حائضہ عورت كى ) فرج ميں وطئ كرنا حرام ہے چاہے حائل كے ذريعہ ہى ہو " انتہى

ديكھيں: اسنى المطالب ( 1 / 100 ) اور تحفۃ المحتاج ( 1 / 390 ).

بحث و تلاش كے باوجود ہميں اس حكم ميں اہل علم كے مابين كوئى اختلاف نہيں ملا، كيونكہ دبر ميں وطئ كرنے كى حرمت والى نصوص مطلق ہيں، جو كہ حائل اور غير حائل سب كو شامل ہيں.

اس ليے مطلقا دبر ميں وطئ كرنا جائز نہيں، چاہے حائل ہو يا بغير حائل كے، اور جو كوئى بھى ايسا قبيح فعل كرتا ہے اسے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور آئندہ عزم كرے كہ وہ اس طرح كا كام دوبارہ نہيں كريگا.

اور بيوى كو چاہيے كہ اگر خاوند ايسا كرنے كا مطالبہ كرتا ہے تو وہ اس كى بات تسليم نہ كرے، اور اگر خاوند ايسا كرنے پر مصر ہو تو بيوى كو قاضى اور عدالت كے ذريعہ طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے.

كيونكہ حديث ميں وارد ہے كہ:

" اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب بھى خاوند بيوى سے دبر ميں وطئ كرے اور بيوى بھى اس سلسلہ ميں اس كى بات راضى و خوشى مان لے تو دونوں كو تعزير لگائى جائيگى؛ اور اگر وہ ايسا كرنے سے باز نہيں آتے تو ان كے مابين عليحدگى كرا دى جائيگى؛ جس طرح ايك فاجر شخص كى دوسرے فجور كرنے والے كے مابين كرائى جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 32 / 267 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android