ہمارے پاس دو افراد ايسے ہيں جن كے قبضہ سے نشہ آور اشياء اور حشيش برآمد ہوئى ہے، ايك وكيل نے ان كا دفاع كرتے ہوئے انہيں برى كروا كر رہا كر وا ليا ہے، حالانكہ ان كا جرم سورج كى طرح واضح تھا اور ان كے متعلق يہ الزام قطعى طور پر ثابت ہو چكا تھا، سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ اس وكيل نے انہيں چھڑانے كے ليے جو رقم حاصل كى ہے اس كا حكم كيا ہے ؟
نشہ آور اشياء كے تاجروں كى وكالت كر كے حاصل ہونے والے مال كا حكم
سوال: 78210
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر (9496 ) كے جواب ميں وكالت كا پيشہ اختيار كرنے كے متعلق فتوى بيان ہو چكا ہے، اور وہاں ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ شر اور برائى كا دفاع اور برے لوگوں كى حمايت كرنا حرام ہے، اور يہ گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں تعاون شمار ہوتى ہے.
اور پھر اللہ تعالى نے تو ايسا تعاون حرام قرار ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اللہ سے ڈر جاؤ يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اس بنا پر شرپسند تاجر جو حرام كردہ نشہ آور اشياء كى تجارت كر كے زمين ميں فساد پھيلانے والوں كا مقدمہ لڑنے والے وكيل كو اپنے اس فعل پر اللہ تعالى كے سامنے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور جتنى جلدى ہو سكے اسے چاہيے كہ وہ ان شرير افراد كو وعظ و نصيحت كرے، نہ كہ وہ انہيں وہ سزا سے بچانے كى كوشش كرے.
اور اسے چاہيے كہ اگر وقت ہے تو وہ عدالت كے سامنے اس گنہگار درخواست سے رجوع كر لے، اور اگر ان كے خلاف فيصلہ ہو چكا ہے تو وہ ان كے ساتھ نہ چلے.
اور اس مقدمہ كى وكالت كركے جو رقم اس نے حاصل كى ہے وہ حرام ہے؛ كيونكہ اس نے يہ ايك حرام كام سرانجام دے كر حاصل كى ہے، اس ليے اسے توبہ و استغفار كرنے كے ساتھ ساتھ ايسا فعل نہ كرنے كا عزم بھى كرنا چاہيے، اور جتنى جلدى ہو سكے وہ اس مال سے چھٹكارا حاصل كر لے اور اسے كسى نيكى وبھلائى كے كاموں ميں صرف كر دے.
اسے يہ جان لينا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” گناہ سے توبہ كرنے والا شخص بالكل اسى طرح ہے جس كا كوئى گناہ ہى نہ ہو ”
اور اسے يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ ايسا كرنے سےاس كا حلال مال پاك ہو جائيگا؛ كيونكہ حرام مال كا اس كے پاس رہنا اس كى ملكيت ميں حلال مال كى ہلاكت كا باعث بن سكتا ہے، اور اس كے ليے يہ مال ان تاجروں كو واپس كرنا بھى جائز نہيں.
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات