اگر ميرى تجارتى دوكان يا پھر كوئى تجارتى مال ہو تو كيا ميں فروخت كيے جانے والا مال كى مشہورى اور اعلان كر سكتا ہوں ؟
تجارتى ايڈوٹائزمنٹ ( اعلانات ) كا حكم
سوال: 7834
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دور حاضر ميں خريداروں كى ترغيب اور تجارتى اعلانات جو معاملات كے سلسلہ ميں شرعى عمومى قوانين اور ضوابط سے خارج نہ ہوں معاصر معاملات ميں سے ہيں، ليكن جب اس وسيلہ كو خريدار كى ترغيب كے ليے كثرت سے استعمال كيا جانے لگا ہے اس كے تفصيلى ضوابط كا ذكر كرنا ضرورى ہے اور خاص كر شرعى اداب و مقاصد كو مد نظر ركھا جائے ان ضوابط ميں سے چند ايك ذيل ميں ديے جاتے ہيں:
اول:
تاجر كو اپنے مال كى مشہورى اور اس كا اعلان كرتے وقت حسن قصد ركھنا چاہيے، وہ اس طرح كہ تاجر كا مقصد يہ ہو كہ لوگ سامان كى خصوصيات اور خدمات جان سكيں، اور اس كے متعلق انہيں جو علم نہيں وہ بھى ان كے علم ميں آجائے اور اس كے بارہ ميں انہيں جن معلومات كى ضرورت ہے وہ بھى انہيں مل سكيں.
دوم:
وہ اپنے مال كا اعلان اور مشہورى كرتے ہوئے صدق وسچائى كو مدنظر ركھے، وہ اس طرح كہ وہ لوگوں كو ايسى بات بتائے جو سامان كى حقيقت اور اس كے كام كى تفصيل دے، كيونكہ صدق سب معاملات ميں ايك اساسى اور بنيادى چيز ہے جس كا خيال ركھنا ضرورى ہے، اور خاص كر خريد و فروخت ميں تو سچائى كا اور بھى زيادہ خيال كرنا چاہيے.
اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
حكيم بن حزام رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” خريدار اور فروخت كرنے والے دونوں كو اس وقت تك اختيار حاصل ہے جب تك وہ جدا نہيں ہو جاتے، لھذا اگر وہ سچائى اختيار كرتے اور وضاحت كرديتے ہيں تو ان كى بيع ميں بركت ہوتى ہے، اور اگر وہ دونوں ( عيب ) چھپاتے اور كذب بيانى سے كام ليتے ہيں تو ان كى بيع كى بركت ختم كردى جاتى ہے” صحيح بخارى حديث نمبر ( 2079 ) ( 2 / 82 – 83 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1532 ) ( 3 / 162 ).
اور سچائى كى تلاش اور اس پر عمل كرنے كے لوازمات ميں يہ شامل ہے كہ فروخت كيا جانے والے سامان كى تعريف اور اس كے اوصاف بيان كرنے ميں مبالغہ كرنے سے اجتناب كيا جائے كيونكہ ايسا كرنا صدق وسچائى اور بيان سےاجتناب ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اور تم ميں سے بعض بعض كے ليے خرچ نہ كرے” ترمذى حديث نمبر ( 1268 ) ( 3 / 559 ). يعنى قيمت زيادہ كركے خريدار كو دھوكہ نہ دے.
يعنى اس كى اس طرح ترويج اور مشہورى نہ كرے كہ سننے والے اس كى خريدارى ميں رغبت كرنے لگے اور يہ ترويج اس كى خريدارى كا سبب بن جائے، اور بعض اہل علم نے تو سامان كى بڑھا چڑھا كرتعريف كرنے كو اس ھذيان اور بے معنى كلام يعنى بے ہودگى ميں شمار كيا ہے جس سے بچنا ضرورى ہے، اور ضابطہ يہ ہے كہ: فروخت كرنے والے فروخت كردہ سامان ميں ہر وہ فعل حرام ہے جس كى وجہ سے ندامت پيش آئے.
سوم:
تاجر تجارتى اعلان اور مشہورى ميں دھوكہ اور تدليس سے اجتناب كرے، وہ اس طرح كہ سامان كو مزين كركے يا پھر اس كے عيوب و نقائص كو چھپا كر پيش نہ كرے يا اس كى ايسى تعريف نہ كرے جو اس چيز ميں نہيں پائى جاتى، كيونكہ يہ سب كچھ حرام ہے جيسا كہ اوپر اس كا بيان گزر چكاہے.
چہارم:
اس كے اعلان اور مشہورى ميں كسى دوسرے كے سامان يا اس كى كام كى مذمت اور نقائص بيان نہ كيے گئے ہوں يا پھر اس ميں ان كى تنقيص ہوتى ہو يا ناحق انہيں نقصان پہنچے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
انس بن مالك رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم ميں سے كوئي بھى اس وقت تك مومن نہيں ہو سكتا جب تك وہ اپنے ( مسلمان ) بھائى كے ليے بھى وہى كچھ پسند نہ كرے جو كچھ وہ اپنے ليے پسند كرتا ہے” صحيح بخارى حديث نمبر ( 13 ) ( 1 / 2 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 45 ) ( 1 / 67 ) .
اور اس ميں ضابطہ يہ ہے كہ: ہر وہ كام اگر وہى كام اس كے ساتھ كيا جائے تو اسے اس ميں مشقت ہو اور وہ اسے ناپسند كرے اور اس پر بوجھ بنے تو اس كے ليے بھى ضرورى اور واجب ہے كہ وہ خود بھى ايسا كام كسى دوسرے كے ساتھ نہ كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان نبوى ہے:
عبادۃ بن صامت رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” نہ تو خود نقصان اٹھاؤ اور نہ كسى دوسرے كو نقصان دو” مسند احمد ( 5 / 326 – 313 ، 327 ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 2340-2341 ).
پنجم:
اس كے اعلان اور مشہورى ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسراف و فضول خرچى كى دعوت ديتى ہو، كيونكہ يہ دونوں شرعا ممنوع ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اسراف و فضول خرچى نہ كرو كيونكہ اللہ تعالى فضول خرچى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الانعام ( 141 ).
اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:
اور فضول خرچى نہ كرو كيونكہ فضول خرچى كرنے والے شيطان كے بھائى ہيں الاسراء ( 26 – 27 ).
ششم:
اس تجارتى اعلان اور مشہورى ميں شرعيت اسلاميہ كى حرمت پامل نہ ہوتى ہو، وہ اسطرح كہ حرام كاموں كى ترويج كى جائے يا اس ميں كوئي منكر اور برا كام شامل كيا جائے مثلا موسيقى اور گانے يا پھر عورتوں كا اظہار ہو يا اس طرح كے دوسرے شرعا ممنوعا كام.
ہفتم:
اعلان اور مشہورى پر بہت زيادہ رقم خرچ نہ كى گئى ہو جو اس كى برداشت سے ہى باہر ہو، بلكہ صرف اسى پر اكتفا كرنا ضرورى ہے جو مال كى تعريف اور اس كے كام وغيرہ معروف كردے اور مقصد حاصل ہو جائے اور اس مشہورى اور اعلان كى بنا پر قيمت پر بھى اثر نہ پڑے اور قيمت زيادہ كر دى جائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال وجواب