سوال: میرے پاس بھیڑ کی ایک نادر قسم ہے، جو کہ شامی بھیڑ کے نام سے مشہور ہے، یہ بھیڑوں کی ایک قیمتی قسم ہے کہ بسا اوقات ایک بھیڑ کی قیمت 50000 ریال تک پہنچ جاتی ہے، میں انہیں پال کر ان کی نسل کی خرید و فروخت کرتا ہوں، اور کچھ کو میرے پاس ایک سال مکمل نہیں ہوا ہوتا، اور ان کو پالنا بھی خاصا مہنگا ہے، کیونکہ ان کا چارہ اور علاج کافی رقم طلب ہوتا ہے، نیز یہ بھیڑیں میں نے ایک باڑے میں رکھی ہوئی ہیں چنانچہ زمینی گھاس پھوس نہیں کھا سکتیں، مندرجہ بالا صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے بتلائیں کہ کیا ان کی زکاۃ ہوگی ؟ اور زکاۃ کا حساب کیسے لگایا جائے گا، اور کیا انہیں مویشی شمار کیا جائے گا یا سامانِ تجارت؟
مویشیوں کا کاروبار کرتا ہے، اور کچھ کو سال پورا نہیں ہوتا تو کیسے زکاۃ ادا کرے؟
سوال: 78842
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ مویشیوں میں اسی وقت زکاۃ فرض ہوگی جب جانور سارا سال یا سال کا اکثر حصہ گھوم پھر کر زمین پر چریں، اور اگر انہیں چارا ڈالا جاتا ہو اور مالک کو چارے کے بدلے میں سرمایہ صرف کرنا پڑے تو ان میں زکاۃ نہیں ہے، تاہم اگر مالک نے ان جانوروں کو تجارت کیلئے رکھا ہوا ہے جیسے کہ سوال میں واضح ہے تو اس میں سامان تجارت کی وجہ سے زکاۃ ہوگی۔
چنانچہ آپ کے پاس موجود بھیڑوں میں زکاۃ جانوروں والی نہیں ہوگی بلکہ بطورِ سامانِ تجارت زکاۃ عائد ہوگی۔
ہم نے یہ بات پہلے سوال نمبر: (40156) کے جواب میں واضح کر دی ہے۔
دوم:
یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا مناسب ہے کہ کچھ لوگ ابتدائے سال کی تحدید میں غلطی کھا جاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس وقت سے سامانِ تجارت خریدا ہے اسی وقت سے زکاۃ کا سال شروع ہو جاتا ہے، یہ تصور غلط ہے، بلکہ نصاب کو پہنچنے والی جس رقم سے تجارتی سامان خریدا گیا ہے جب اس رقم کو سال ہو جائے گا تو خریدے ہوئے سامان کا سال بھی مکمل ہو جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ: آپ بھیڑیں یا کوئی بھی تجارتی سامان خریدیں اور اس کیلئے اتنی رقم صرف ہو جائے کہ نصاب کو پہنچتی ہو تو آپ کے مال کی زکاۃ کا سال اس وقت سے شروع ہوگا جب آپ کے پاس نقدی ، سونا یا چاندی جمع ہوا تھا۔
یہی حکم اس وقت ہوگا جب آپ تجارتی سامان کسی دوسری چیز کے بدلے میں خریدتے ہیں اور جس کی قیمت نصاب کے برابر ہے، مثال کے طور پر آپ بھیڑیں ایک ایسی گاڑی کے بدلے میں خریدتے ہیں جس کی آپ تجارت کرتے تھے، تو اب بھیڑوں کی زکاۃ کا سال وہی ہے جو کار کا تھا۔
اس کی وجہ ہے یہ ہے کہ: تجارت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک چیز لیکر دوسری لیتے ہیں ، اور اگر ہر چیز کا سال الگ سے مقرر کریں تو تجارتی اموال پر زکاۃ کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
“اگر کوئی شخص نصاب کے برابر سونا یا چاندی سے کوئی سامان خریدے، یعنی ایک آدمی نے دو سو درہم کے بدلے میں کوئی سامان خریدا ہے، تو اب اس سامان کا نیا سال شمار نہیں ہوگا، بلکہ سال وہی سونے یا چاندی یا نقدی والا ہی جاری رہے گا؛ کیونکہ سامانِ تجارت میں سال سامان پر نہیں بلکہ سامان کی قیمت پر ہوتا ہے۔
ایک اور مثال: ایک آدمی کو ایک ہزار ریال رمضان میں ملے، اور آئندہ سال شعبان میں اسی ہزار ریال کا سامان تجارت خرید لیا تو رمضان میں اس سامانِ تجارت کی زکاۃ ادا کریگا؛ کیونکہ سامانِ تجارت کا سال وہی ہوتا ہے جو ان کی قیمت کا سال ہوتا ہے۔
یہی حکم اس وقت بھی ہو گا جب سامان کے بدلے میں سامان خریدے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس تجارت کی غرض سے ایک گاڑی ہے، اور دورانِ سال اس کے بدلے میں تجارت ہی کی غرض سے ایک اور گاڑی خرید لی تو اس میں پہلی گاڑی والا سال ہی چلتا رہے گا؛ کیونکہ یہاں سامان تجارت مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت اور قدر مقصود ہے، اگر سامان تجارت تبدیل بھی ہو گیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ دوسری گاڑی اپنے ذاتی استعمال کیلئے نہیں لی بلکہ تجارت مقصود ہے” انتہی
“الشرح الممتع”
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد: اگر رمضان میں آپکو 10000 ملے، اور پھر آپ نے ماہ ذو الحجہ میں آپ نے بھیڑیں خریدیں، اور آپ نے ان کی خرید و فروخت شروع کر دی، تو آپ کے مال کی زکاۃ رمضان میں واجب ہو جائے گی، چنانچہ آپ ہر سال ہر رمضان میں بھیڑوں کی قیمت لگائیں، اور اپنے پاس موجود نقدی وغیرہ کو بھی اس میں شامل کریں، اور پھر سب کی زکاۃ ادا کرنے کیلئے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کریں، آپ اسی طرح ہر سال زکاۃ ادا کرتے جائیں گے، تاہم اگر درمیان میں نصاب سے کم مال ہو جائے تو سال دوبارہ اسی وقت شروع ہوگا جب مال نصاب کے برابر ہو جائے، مثلاً: ماہِ صفر میں اپنا سارا مال فروخت کر کے رہائشی زمین یا مکان خرید لیتا ہے، پھر اللہ تعالی اسے رجب میں مزید دولت سے نوازتا ہے اور وہ دوبارہ سے کاروباری سر گرمیاں شروع کر دے تو اب اس کی تجارت کا سال رجب سے شروع ہوگا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات