0 / 0
11,91002/10/2006

نماز ميں دعاء كرنے كا مناسب طريقہ

سوال: 7886

ميں نماز ميں دعاء كرنے كا مناسب اور وہ طريقہ معلوم كرنا چاہتا ہوں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا تھا، كيا يہ نماز كے بعد ہے، يا كہ دو سجدوں كے مابين يا قيام ميں يا كسى اور وقت ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اللہ تعالى آپ پر رحم كرے آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ نماز ميں كوئى ايك جگہ دعاء كے ليے مخصوص نہيں، بلكہ نماز ميں دعاء كو كئى ايك مقام پر كى جاتى ہے، علماء كرام نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كيا كہ تكبير تحريمہ سے ليكر سلام تك كئى ايك مقام پر دعا ہوتى ہے.

اور يہ بھى كہ نماز كے بعد دعاء كرنا سنت ہے، اس وقت كئى ايك دعائيں ہيں، جن كا بيان ان شاء اللہ آگے ہو گا.

اور آپ كو يہ بھى علم ہونا چاہيے كہ سب سے بہتر اوراچھا طريقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور سب سے افضل علم اور قول وہ ہے جو سنت نبويہ كے موافق ہو، اور الفاظ بھى سب سے بہتر اور افضل وہى ہيں جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ ہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عربى زبان كو سب لوگوں سے زيادہ جانتے تھے، اور ان ميں سے سب سے زيادہ فصيح اللسان بھى تھے، اور بيان كے اعتبار سے بھى سب سے بہتر بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو توفيق دى تھى كہ بہت سے معانى كو بہت ہى قليل سى كلام ميں بيان فرما ديتے تھے جسے جوامع الكلم كا نام ديا جاتا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" مجھے جوامع الكلم دے كر مبعوث كيا گيا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6611 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 523 ).

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مجھ تك يہ بات پہنچى ہے كہ جوامع الكلم يہ ہيں كہ اللہ سبحانہ وتعالى بہت سے امور جو پہلى كتابوں ميں لكھے جاتے تھے وہ ايك يا دو امر ميں جمع فرما ديتے.

تو اس بنا پر اگر آپ نماز ميں مشروع مقامات پر دعاء كرنا چاہتے ہيں جہاں دعا كرنى مستحب ہے تو پھر افضل ترين دعاء وہ ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ ميں ہے اس ليے آپ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ والى دعاء ہى كريں.

دوم:

اگر آپ ايسا نہ كرسكيں، اور آپ كو يہ دعائيں حفظ نہيں تو پھر سب سے بہترين دعاء وہ جو تكلف اور تصنع اور كلام ميں پيھلاؤ سے دور ہو، اور جو مسجع مقفع كلام سے بعيد ہو، اور دعاء اپنى اس ضرورت اور حاجت كے موافق ہو جو آپ چاہتے ہيں، اور اللہ تعالى آپ پر اسے كھول دے.

ايك حديث ميں آيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص سے كہا:

" تم نماز ميں كيا كہو گے؟

تو اس شخص نے عرض كيا ميں تشھد پڑھ كر پھر يہ دعاء كرونگا:

" اللهمّ إني أسألك الجنة وأعوذ بك من النار "

اے اللہ ميں تجھ سے جنت كا سوال كرتا ہوں، اور جہنم كى آگ سے پناہ مانگتا ہوں "

ليكن ميں آپ اور معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كى گنگناہٹ كو اچھى طرح ادا نہيں كر سكتا.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان دونوں كے ارد گرد ہى گنگناؤ "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 792 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

سوم:

اور نماز سے سلام پھير كر دعاء كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، جب نماز سے فارغ ہوتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم درج ذيل كلمات كہا كرتے تھے:

" استغفراللہ، استغفراللہ، استغفر اللہ " پھر باقى دعائيں كرتے جو احاديث ميں وارد ہيں، ان كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 7646 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ہمارے علم كے مطابق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے فرضى نماز كے بعد ہاتھ اٹھا كر دعاء كرنا ثابت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ثابت ہے، آج كل جو لوگ فرضى نماز كے بعد ہاتھ اٹھا كر دعاء كرتے ہيں اس كى كوئى اصل اور دليل نہيں ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 1 / 74 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نماز سے سلام پھيرنے كے بعد قبلہ رخ يا مقتديوں كى جانب رخ كر كے دعاء كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى صحيح يا پھر حسن روايت ملتى ہے.

اسى طرح نماز فجر اور نماز عصر كو اس كے ليے خاص كرنا بھى كسى خليفہ راشد سے ثابت ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےايسا كيا اور نہ ہى اپنى امت كى اس طرف راہنمائى كى.

بلكہ سنت كے عوض ميں كسى شخص نے اسے اچھا اور مستحسن عمل قرار ديا ہے. واللہ اعلم.

نماز كے متعلقہ عام دعائيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى كيں اور اس كا حكم بھى ديا، نمازى كے شايان شان بھى يہى ہے، كيونكہ نمازى اپنے رب كے سامنے كھڑا اس سے سرگوشياں اور مناجات كر رہا ہے، لہذا جب نماز سے سلام پھير ليا تو يہ مناجات و سرگوشياں ختم ہو گئيں، اوراس كے سامنے سے يہ كھڑا ہونا اور قرب زائل ہو گيا، تو پھر وہ مناجات و سرگوشياں كرنے اور قرب كى حالت اور اس كى طرف متوجہ ہونے كے وقت كس طرح اس سے سوال كرنا ترك كرتا ہے، ليكن جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس سے سوال كرنا شروع كر ديا؟!

بلا شك و شبہ اس كے برعكس حالت نمازى كے ليے بہتر اور اولى ہے، مگر يہاں ايك بہت ہى لطيف اور باريك نقطہ ہے وہ كہ: جب نمازى نماز سے فارغ ہو كر اللہ تعالى كا ذكر اور اس وحدانيت اور حمد و تعريف اور تكبير مشروع اذكار كے ساتھ بيان كرتا ہے، تو اس كے بعد اس كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا اور اس كے بعد جو چاہے اللہ تعالى سے مانگنا مستحب ہے، تو اس كى يہ دعاء اس دوسرى عبادت كے بعد ہو گى، نہ كہ نماز كے بعد كيونكہ جو شخص بھى اللہ تعالى كا ذكر كرتا اور اس كى حمد و تعريف بيان كرتا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پردرود و سلام پڑھے اس كے اس كے بعد دعاء كرنا مستحب ہے.

جيسا كہ فضالۃ بن عبيد رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے:

" جب تم ميں سے كوئى نماز ادا كرے تو الحمد اللہ اور اللہ كى ثناء سے ابتداء كرے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے پھر جو چاہے دعاء كرے "

امام ترمذى كہتے ہيں يہ حديث صحيح ہے، امام حاكم نے اسے صحيح كہا ہے اور ذھبى نے اس كى موافقت كى ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 257 – 258 ).

چہارم:

نماز ميں دعاء كے مقامات كو ذيل ميں مختصر طور پر پيش كرتے ہيں:

1 – تكبير تحريمہ كے بعد اور سورۃ فاتحہ سے قبل درج ذيل دعاء پڑھى جائيگى، اسے دعاء استفتاح كا نام ديا جاتا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز شروع كرتے تو كچھ دير كے ليے خاموش رہتے، ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ تكبير تحريمہ اور قرآت كے مابين خاموشى كے وقت كيا پڑھتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ميں يہ كلمات پڑھتا ہوں:

" اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد "

اے اللہ ميرے اور ميرے گناہوں كے درميان اس طرح دورى ڈال دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب كے درميان دورى ڈال ركھى ہے، اے اللہ مجھے ميرے گناہوں سے اس طرح پاك صاف كر دے جس طرح ايك سفيد كپڑا ميل كچيل سے پاك كيا جاتا ہے، اے اللہ مجھے ميرے گناہوں سے برف، پانى، اور اولوں كے ساتھ دھو ڈال "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 711 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 598 ).

2 – وتر كى دعاء قنوت:

حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وتروں ميں پڑھنے كے ليے يہ كلمات سكھائے:

" اللهمّ اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وقني شرما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تباركت ربنا وتعاليت "

اے اللہ مجھے ان لوگوں ميں ہدايت نصيب فرما جنہيں تو نے ہدايت دى ہے، اور جن لوگوں كو تو نے عافيت دى ہے ان ميں مجھے بھى عافيت سے نواز، اور جن لوگوں تو خود والى بنا ہے ان ميں ميرا بھى والى بن، اور تو نے جو فيصلے كيے ہيں ان كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو فيصلے كرتا ہے اور تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں ہو سكتا، يقينا جس كا تو دوست بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كر سكتا، اور جس كا تو دشمن بن جائے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو عزت والا اور بلند و بالا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1745 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1178 ) اس حديث كو ترمذى وغيرہ نے حسن قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 429 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

3 – مسلمانوں پر عمومى مصائب نازل ہونے كے وقت ركوع كے بعد اٹھ كر دعاء كرنا جسے قنوت نازلہ كا نام ديا جاتا ہے.

يہ دعاء ہر فرضى نماز ميں عام ہے اور حالات كے مطابق دعاء كى جاتى ہے مقتدى امام كے پيچھے آمين كہينگے.

اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20031 ) كا جواب ديكھيں.

4 – ركوع ميں پڑھى جانے والى دعائيں:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ركوع ميں يہ دعا پڑھا كرتے تھے:

" سبحانك اللهمّ ربنا وبحمدك اللهمّ اغفر لي "

اے اللہ ہمارے رب تو پاك ہے، اور تو اپنى تعريف كے ساتھ اےاللہ مجھے بخش دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 761 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 484 ).

5 – سجدہ ميں كى جانے والى دعاء:

اور پھر سجدہ ميں دعاء كرنا سب سے افضل اور بہتر دعاء ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے كوئى ايك اپنے رب كے سب سے زيادہ قريب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ كرے، چنانچہ سجدہ ميں كثرت سے دعاء كيا كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 482 ).

سجدہ ميں دعاء كے متعلق بہت سى احاديث ہيں جن كا يہاں ذكر كرنا ممكن نہيں.

6 – دو سجدوں كے درميان دعاء كرنا:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو سجدوں كے درميان يہ دعاء پڑھا كرتے تھے:

" اللهمّ اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني "

اے اللہ مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، اور ميرا نقصان پورا كر دے اور مجھے ہدايت نصيب فرما، اور مجھے روزى عطا فرما "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 284 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 898 ) اس كے علاوہ بھى كئى اور دعائيں ہيں، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

7 – تشھد كے بعد اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى آخرى تشھد سے فارغ ہو تو وہ اللہ تعالى سے چار اشياء كى پناہ كے ليے يہ دعاء پڑھے:

" اللهمّ إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن شر فتنة المسيح الدجال "

اے اللہ ميں جہنم كے عذاب سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں، اور عذاب قبر سے اور زندگى اور موت كے فتنہ سے، اور مسيح الدجال كے فتنہ كے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1311 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 588 ) يہ الفاظ صحيح مسلم كے ہيں.

اور بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے كوئى ايسى دعاء سكھائيں جو ميں اپنى نماز ميں كيا كروں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم يہ دعاء پڑھا كرو:

" اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا ، وَلا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ "

اے اللہ ميں نے اپنى جان پر بہت زيادہ ظلم كيا ہے، اور تيرےعلاوہ كوئى اور گناہ بخشنے والا نہيں ہے، چنانچہ تو مجھے خاص اپنى جانب سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، يقينا تو بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 834 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2705 ).

پھر اس كے بعد جو چاہے دنيا و آخرت كى بھلائى كى دعاء كرے، كيونكہ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى كى حديث ميں ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں تشھد سكھائى اور پھر اس كے آخر ميں فرمايا:

" پھر اسے اختيار ہے جو چاہے سوال كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5876 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 402 ).

نماز ميں مانگى جانے والى دعائيں تو بہت ہيں جو اس جواب ميں سب بيان نہيں ہو سكتيں، صرف اتنا ہے كہ ہم نے اس جواب ميں بعض دعاؤں كى طرف اشارہ كر ديا ہے، اور سائل ـ اور ہر مسلمان ـ كو ہمارى نصيحت ہے كہ اس كے پاس امام نووى رحمہ اللہ تعالى كى كتاب الاذكار ہونى چاہيے يہ دعاؤں كى مطول كتاب ہے، اور اگر وہ مختصر كتاب چاہتا ہے تو پھر شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " الكلم الطيب " جس كى تحقيق علامہ البانى رحمہ اللہ نے كى ہے اپنے پاس ركھے.

اللہ تعالى سب پر رحم فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android