0 / 0
5,49319/09/2009

سگھے بھائى كے علاوہ كسى اور بھائى كو زكاۃ دينا

سوال: 78994

ميرے سگھے بھائيوں كے علاوہ ميرے والد كى جانب سے دوسرى ماں سے بھى بھائى ہيں اور والد فوت ہو چكے ہيں، انہيں مال كى ضرورت ہے كيا ميں اپنا فطرانہ انہيں دے سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

فطرانہ فقراء اور مساكين كو ديا جاتا ہے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں وارد ہے :

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ فرض كيا، يہ روزے دار كے بےہودہ اور غلط كام سے پاكى اور مسكينوں كے ليے كھانے كا باعث ہے ”

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1827 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1085 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہ بھى تھا كہ آپ اس فطرانہ كو مساكين كے ليے مخصوص كرتے تھے ” انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 21 ) .

جب يہ فيصل شدہ بات ہے تو آپ كو علم ہونا چاہيے كہ قريبى رشتہ دار جو فقير و تنگ دست بھى ہو وہ دوسرے سے زيادہ زكاۃ كا مستحق ہے.

ليكن كسى كے ليے يہ جائز نہيں كہ وہ ايسے شخص كو زكاۃ كا مال دے جس كا خرچ اس كے ذمہ ہو.

آپ پر واجب ہے كہ آپ جب ان كى وارث بن سكتے ہيں تو پھر آپ كے ليے جائز نہيں كہ انہيں زكاۃ ادا كريں، اور اگر ان كے وارث نہيں يعنى ان كى وراثت ميں آپ كا كوئى حق نہيں تو پھر انہيں زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں.

اور آپ كے ذمہ ان كے اخراجات اور خرچ اس صورت ميں واجب ہوگا جب آپ كے پاس اپنى اور اپنے اہل و عيال كى ضرورت سے زيادہ مال ہو، اگر آپ كے پاس اتنا مال نہيں تو آپ پر ان كا خرچ واجب نہيں ہے، كيونكہ آپ كے پاس استطاعت نہيں، اور اس حالت ميں آپ كے ليے انہيں زكاۃ ادا كرنا جائز ہے چاہے آپ اس كے وارث بھى ہوں.

مزيد آپ سوال نمبر (106540 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android