ہمارے ہاں اردن ميں ايك نئى عادت شروع ہوئى اور بہت كثرت سے پھيل بھى چكى ہے، وہ يہ كہ رمضان المبارك شروع ہوتے ہى عمارتوں پر ہلال اور ستارے لگا كر برقى قمقموں سے لائيٹنگ كر كے رمضان المبارك آنے كا جشن منايا جاتا ہے، اور سارا مہينہ ہى رہتا ہے، تو كيا يہ جائز ہے يا كہ يہ اسراف ميں شامل ہوتا ہے، اور ماہ دسمبر ميں عيسائيوں كے ميلاد كے درخت كو مزين كرنے كى تقليد ہے، اور كيا لوگوں كى جہالت انہيں معذور شمار كريگى ؟
رمضان المبارك ميں عمارتوں پر چاند ستارے پر مشتمل لائٹ لگانا
سوال: 79141
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارے خيال ميں ماہ رمضان كے شروع ہونے كى خوشى ميں برقى قمقے لگا كر زينت كا اظہار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں درج ذيل امور كا خيال ركھنا چاہيے:
1 – اس ميں يہ اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ ايسا كرنا عبادت ہے، بلكہ يہ عادى اور مباح امور ميں شامل ہوتا ہے.
2 – اس زيبائشى قمقموں كو بہت زيادہ مہنگى قيمت ميں خريد كر اسراف نہيں كرنا چاہيے.
3 – اس خوبصورتى قمقموں ميں كسى ذى روح كى تصوير نہيں ہونى چاہيے، يا پھر اس زيبائش اور لائٹنگ ميں گانا بجانا نہ ہو.
4 – اس طرح كى خوبصورتى اور زيبائش مساجد ميں نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ ايسا كرنے سے نمازيوں كى نماز ميں خلل پيدا ہوتا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بعض مساجد ميں عيد الفطر اور دوسرے دينى ايام كے مواقع پر عادتا مساجد كو رنگ برنگ كے برقى قمقموں اور پھولوں سے سجايا جاتا ہے، تو كيا اسلام ان اعمال كى اجازت ديتا ہے يا نہيں ؟
اور اس كے جواز اور منع كى دليل كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" مساجد اللہ تعالى كا گھر ہيں، اور زمين ميں سب سے بہتر اور اچھى جگہ شمار ہوتى ہے، اللہ تعالى نے اجازت دى ہے كہ ان مساجد ميں اللہ تعالى كى توحيد اور اس كا ذكر بلند كيا جائے، اور نماز قائم كى جائے، اور لوگوں كو ان مساجد ميں ان كے دينى مسائل اور ان كى سعادت و كاميابى كى طرف راہنمائى كى جائے، اور ان مساجد كو بتوں اور پليدى اور شركيہ اعمال اور بدعات و خرافات سے پاك كر كے دينا و آخرت ميں لوگوں كى اصلاح كى جائے، اور مساجد كو گندگى و نجاست سے پاك ركھا جائے، اور مساجد ميں لہو و لعب اور اونچى آوازيں نكالنے اور شور وغوغا كرنے سے اجتناب كيا جائے، اور ان مساجد ميں كسى گمشدہ چيز اور ضائع شدہ چيز كا اعلان مت كيا جائے، اور اس طرح كے دوسرے اعمال بھى نہ كيے جائيں جو ان مساجد كو عام راستے، اور تجارتى ماركيٹ بنا كر نہ ركھ ديں، اور ان مساجد ميں كسى كو بھى دفن نہ كيا جائے، اور اسى طرح اس ميں قبر بھى نہ بنائى جائے، اور نہ ہى مسجد پر قبر بنائى جائے.
اور ان مساجد ميں تصاوير نہ لٹكائى جائيں، اور نہ ہى اس كى ديواروں پر نقش و نگار نہ كيا جائے، اور اسطرح كے دوسرے كام جو شرك كا باعت بنتے ہيں ان سے اجتناب كيا جائے، اور يہاں آكر عبادت كرنے والوں كى اللہ كى عبادت ميں خلل پيدا كرتے ہيں، مساجد بنانے كے مقصد كے منافى ہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا بہت خيال ركھا جيسا كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت، اور آپ كے عمل مبارك سے ثابت ہے، اور آپ نے اپنى امت كى راہنمائى كرتے ہوئے بھى اس كا بيان كيا ہے، تا كہ وہ آپ كےمنہج اور طريقہ پر چليں، اور مساجد كے احترام اور انہيں آباد كرنے ميں آپ كےطريقہ پر چليں، كيونكہ وہاں اسلامى شعار كا قيام اور اعلان ہوتا ہے، اس ميں وہ رسول امين كى اقتدا كريں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ كہيں بھى ثابت نہيں كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے مساجد ميں روشنى كر كے اس كى تعظيم كى ہو، اور مختلف تہواروں اور عيد كے موقع پر وہاں پھول ركھے ہوں، اور نہ ہى آپ كے بعد خلفاء راشدين سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اور نہ ہى پہلے تين ادوار ميں آئمہ مجتہدين سے جس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ يہ سب سے بہتر دور ہيں، باوجود اس كے كہ لوگ ترقى كر چكے تھے اور ان كے پاس اموال كى بھرمار تھى، اور انہوں نے شہرى زندگى كا ايك وافر حصہ بھى حاصل كر ليا تھا، اور زينت كى انواع و اقسام بھى پہلے تين ادوار ميں وافر تھيں.
اور پھر مكمل خير و بھلائى تو صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كرنے ميں پنہاں ہے، اور پھر ان كے بعد خلفاء راشدين كى سنت اور اور ان كے نقش قدم پر چلنے والے آئمہ كرام كى پيروى ميں.
اور پھر مختلف تہواروں اور مواقع پر مساجد ميں چراغاں كرنا، يا برقى قمقمے لگانا، يا مساجد كے ارد گرد اور اس كے مناروں پر چراغاں كرنا، اور وہان جھنڈياں وغيرہ لگانا، اور پھول ركھ كر تعظيم كرنا، يہ سب كچھ كفار كے ساتھ تشبيہ ہے، كيونكہ وہ اپنے چرچ اور كنيسہ ميں ايسا كرتے ہيں اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كے تہواروں ميں كفار كے ساتھ مشابہت كرنے اور ان كى عبادت ميں مشابہت اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 2 / 20 – 21 ).
اور جب مسجد ميں موجود روشنى اسے روشن كرنے كےليے كافى ہے تو پھر اضافى روشنى كرنے كا كوئى فائدہ نہيں، جس ميں مشروع فائدہ نہ ہو، بلكہ اسے كسى اور جگہ صرف كرنا چاہيے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 31 / 206 ).
دوم:
ہم ايك بات كى تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ:
ہلال يا ستارہ كے مسلمانوں كا شعار ہونے كى شرع ميں كوئى دليل اور اصل نہيں ہے، اور نہ ہى نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں يہ معروف تھا، اور نہ ہى خلفاء راشدين كے دور ميں، اور نہ ہى بنى اميہ كے دور ميں بلكہ اس كى ايجاد تو اس كے بھى بعد ہوئى ہے….
بہر حال جو بھى ہو تو شعار اور علامت كے ليے ضرورى ہے كہ وہ شريعت كے موافق ہو، اور اس ليے كہ اس كى مشروعيت پر كوئى دليل نہيں ملتى، تو اس ترك كرنا ہى زيادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، نہ تو ہلال يعنى چاند مسلمانوں كا شعار ہے، اور نہ ہى ستارہ، چاہے مسلمانوں نے اسے اختيار كر ركھا ہے "
اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 1528 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كر ليں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات