ميرا خيال ہے كہ ميں نے اذان كے متعلق پڑھا تھا كہ ايك شخص نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو اذان كہنے كى تجويز اس وقت پيش كى تھى، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيسائيوں كى طرح گھنٹى يا پھر يہوديوں كى طرح بگل بجانے كو ناپسند كيا تھا.
سوال يہ ہے كہ ہمارے اس اعتقاد كے بعد كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو حكم بھى ہميں ديتے ہيں وہ وحى ہوتا ہے اذان كا معاملہ اس كے ساتھ كيسے متفق ہو گا؟
ميں جھگڑنے كى كوشش نہيں كر رہا ليكن صرف فہم كے حصول كے ليے صاف دل كے ساتھ سوال كر رہا ہوں، آپ كا شكريہ ؟
كيا اذان بطريقہ وحى آئى يا كہ يہ كسى صحابى كى تجويز تھى ؟
سوال: 7945
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
لغت ميں اذان سے مراد ابلاغ اور پہنچانا اور معلوم كرانا ہے.
اور شرعى اصطلاح ميں اذان نماز كا وقت داخل ہونے كى اعلان كرنا ہے اذان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں مدينہ شريف ميں شروع ہوئى جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے.
عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو نماز كے وقت جمع كرنے كے ليے ناقوس بنانے كا حكم ديا تو ميرے پاس خواب ميں ايك شخص آيا جس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا ميں نے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كروگے ؟
تو اس نے جواب ديا: تم اس خريد كر كيا كرو گے ؟ ميں نے جواب ديا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلايا كرينگے، تو وہ كہنے لگا: كيا ميں اس سے بھى بہتر چيز تمہيں نہ بتاؤں ؟
تو ميں نے اس سے كہا: كيوں نہيں، وہ كہنے لگا:
تم يہ كہا كرو:
" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )
راوى بيان كرتے ہيں: پھر وہ كچھ ہى دور گيا اور كہنے لگا:
اور جب تم نماز كى اقامت كہو تو يہ كلمات كہنا:
" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ ( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).
عبد اللہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں چنانچہ جب صبح ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گيا تو اپنى خواب بيان كى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے، تم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑے ہو كر اسے اپنى خواب بيان كرو، اور وہ اذان كہے، كيونكہ اس كى آواز تم سے زيادہ بلند ہے.
چنانچہ ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑا ہوا اور انہيں كلمات بتاتا رہا اور وہ ان كلمات كے ساتھ اذان دينے لگے، جب عمر رضى اللہ تعالى نے يہ اپنے گھر ميں سنے تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے چلے آئے اور كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كى خواب ديكھى ہے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: الحمد للہ "
مسند احمد حديث نمبر ( 15881 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 421 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 174 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 698 ).
اس حديث سے يہ واضح ہوا كہ اذان ايك صحابى كا خواب تھى جس ميں يہ اذان ديكھى گئى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو تسليم كيا نہ كہ يہ آپ كے كہنے كے مطابق تجويز تھى، بلكہ يہ خواب ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ خواب نبوت كے ستر ( 70 ) حصوں ميں سے ايك حصہ ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نيك اور صالح خواب نبوت كے ستر حصوں ميں سے ايك حصہ ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 4449 ).
اور بخارى كى روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" نيك اور صالح خواب نبوت كے چھياليس حصوں ميں سے ايك حصہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6474 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4203) اور حديث نمبر ( 42005 ).
چنانچہ يہاں يہ خواب سچ اور حق ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا، اور يہ اذان اللہ كى جانب سے تھى نہ كہ كسى شخص كى تجويز، اور يہ نبوت ميں سے ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا اور اسے تسليم بھى كيا كہ يہ خواب حق ہے، اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا اقرار نہ كرتے تو يہ خواب حق نہ ہوتى اور نہ ہى نبوت ميں سے.
چنانچہ اس كے حق كا فيصلہ كرنے والے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہيں اور اس پر عمل كرنے كا حكم دينے والے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہى ہيں، جن كى جانب اپنے رب كى جانب سے وحى كى جاتى تھى.
اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى اس طرح كى خواب ديكھى تھى، ہميں يہ نہيں بھولنا چاہيے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ خلفاء راشدين المھديين ميں شامل ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" تم ميرى سنت اور خلفاء راشدين المھديين كے طريقہ كو لازم پكڑو اور اس پر سختى سے عمل كرتے رہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2600 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 43 ) مسند احمد حديث نمبر ( 16519 ).
اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ميں كئى ايك بار وحى اور شريعت الہى بھى نازل ہوئى.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" پہلى امتوں ميں محدث ہوا كرتے تھے، اگر ميرى امت ميں سے كوئى ہوا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ ان ميں سے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3282 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2398 ) صحيح مسلم ميں محدث كى تفسير ميں ابن وھب كا قول ہے كہ: جنہيں الہام ہوتا تھا.
اگر آپ يہ كہيں كہ اذان كى ابتدا اس طريقہ سے كيوں ہوئى كہ دو صحابى خواب ميں ديكھيں، اور پھر وحى بھى اس كى تاكيد كرتى ہے، ليكن يہ براہ راست وحى ميں سے نہيں جس طرح دوسرے احكام بذريعہ وحى نازل ہوئے ہيں، اس كا جواب يہ ہے كہ:
اللہ سبحانہ وتعالى جس طرح چاہے اور جو چاہے مشروع كرتا ہے، ہو سكتا ہے جو كچھ ہوا اس ميں ان دو صحابيوں كى فضيلت ظاہر كرنے، اور اس امت ميں خير و بھلائى كے ثبوت كے ليے ہو كہ اس امت ميں ايسے لوگ بھى ہيں جن كى موافقت ميں وحى نازل ہوتى ہے، اور ان ميں سچى اور حق خوابيں جو ان كى صداقت پر دلالت كرتى ہيں، كيونكہ جو سچى خواب والا ہے وہ بات چيت ميں بھى سچائى اختيار كرتا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.
آخر ميں ہم يہ كہينگے كہ:
يہ تو معلوم ہى ہے كہ اہل علم كى كتب ميں سنت كى تعريف يہ ہوئى ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول يا عمل يا تقرير سنت كہلاتى ہے.
چنانچہ قول اور فعل تو واضح ہے، ليكن تقرير يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كوئى شخص كوئى عمل كرے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے برقرار ركھيں تو وہ فعل شرع ہے، يہ عمل اس كے فعل كى بنا پر شرع نہيں بنا بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موافقت كى بنا پر ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم باطل پر خاموش نہيں رہ سكتے، اور نہ ہى كسى كو باطل اور گمراہى پر برقرار رہنے ديتے ہيں.
اور بعض اوقات تو اس عمل كا اقرار نہيں كرتے يعنى اسے اس كام كے كرنے سے منع كر ديتے ہيں، جيسا كہ صحابى ابى اسرائيل كو منع كيا جو كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل روايت ميں ہے:
وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص دھوپ ميں كھڑا تھا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے اس كے متعلق دريافت كيا تو لوگوں نے جواب ديا:
يہ ابو اسرائيل ہے اس نے نذر مان ركھى ہے كہ وہ كھڑا ہى رہے گا بيٹھے گا نہيں، اور سايہ اختيار نہيں كرے گا، اور نہ ہى بات چيت كرے گا، اور بلكہ روزہ ركھے گا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اسے حكم دو كہ وہ بات چيت كرے، اور سايہ اختيار كرے، اور بيٹھے اور اپنا روزہ مكمل كرے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6326 ).
ديكھيں يہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو اسرائيل كو روزے كى نذر پورى كرنے كا حكم ديا اور اس كى باقى نذر كو باطل قرار ديا، اور اسے اس پر قائم رہنے كى موافقت نہيں كى.
تو پھر اس سے يہ واضح ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى دونوں صحابيوں كى موافقت اور اقرار كى بنا پر اذان شرع اور دين بنى، اللہ تعالى نے دونوں صحابيوں كو خواب ميں دكھائى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو اذان سكھائيں تا كہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ اذان ديں.
اميد ہے كہ جو كچھ مندرجہ بالا سطور ميں بيان ہوا ہے اس سے اشكال ختم ہو گيا، اور سائل كے ليے اس معاملہ كى وضاحت ہو گئى ہو گى.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ ہميں اور آپ كو دين كى سمجھ عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد