ميں انجيئر ہوں اور ايك دفتر ميں ملازمت كرتا ہوں جہاں ميرا كام بلڈنگ كا نقشہ تيار كرنا اور اس كى نگرانى ہے چاہے وہ سودى قرضہ حاصل كر كے تعمير كى جائے يا غير سودى، تو كيا ميں ميرا يہ كام سود ميں شامل ہوتا ہے يا نہيں ؟
كيونكہ جس ملك ميں ہم رہائش پذير ہيں وہاں بہت زيادہ سودى قرضہ دينے كى رسم چل نكلى ہے، تو كيا ميرا كام سود كے زمرے ميں آتا ہے كہ كيونكہ ميں نقشہ تيار كر كے معاونت كرتا ہوں، اور كيا اس كے ليے سيمنٹ، ريت اور بجرى اور سريا وغيرہ فروخت كرنے والے، اور اس كى تعمير ميں حصہ لينے والا عملہ سب سود ميں شامل ہوتا ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ اس سلسلہ ميں مجھے جواب ضرور ديں، كيونكہ مجھے اس مسئلہ نے بہت پريشان كر ديا ہے.
سودى قرض سے بنائى جانے والى عمارتوں كے نقشہ جات تيار كرنا
سوال: 82277
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو آپ كا كام نقشہ جات كى تيارى اور اس كى نگرانى كرنا ہے تو يہ اس شرط پر جائز ہے كہ آپ ايسى بلڈنگ كا نقشہ تيار نہ كريں جو بلڈنگ برائى كے ليے تيار كى جارہى ہو، مثلا سودى بنك، اور شراب اور قمار بازى كے اڈے وغيرہ اور دوسرى معصيت و نافرمانى اور فسق و فجور سينما وغيرہ كى بلڈنگ، كيونكہ ان كا نقشہ تيار كرنا معصيت و نافرمانى كے عمل ميں معاونت اور فساد پيدا كرنے والى بلڈنگيں زيادہ كرنا ہوگا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (82551 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن مباح اور جائز بلڈنگ كا نقشہ تيار كرنا، مثلا رہائش كے ليے گھر تو اس ميں كوئى حرج نہيں، چاہے اس كے مالك نے اسے سودى قرض حاصل كر كے ہى تيار كرنا ہو، كيونكہ آپ نے معصيت اور نافرمانى ميں اس كى معاونت نہيں كى ـ جو كہ سودى قرض كا حصول تھا ـ بلكہ آپ نے تو ايك مباح اور جائز كام كيا اور اس سے اس كام كى اجرت اور مزدورى حاصل كى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كچھ صحابہ بعض يہوديوں كے پاس مباح كام كيا كرتے تھے، مثلا كھيتوں كو پانى لگانا وغيرہ، اور يہ تو سب كو معلوم ہے كہ يہودى غالب طور پر سودى كاروبار كرتے ہيں، اور لوگوں كا مال ناحق طريقہ سے كھاتے ہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان بھى ہے:
اور يہوديوں كے ظلم كى بنا پر ہم نے ان پر وہ پاكيزہ چيزيں ان پر حرام كر ديں جو ان كے ليے حلال كى تھيں، كہ وہ ا كثر لوگوں كو اللہ كى راہ سے روكتے تھے، اور ان كے سود لينے كى بنا پر جس سے انہيں منع كيا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كى بنا پر، اور ان ميں سے جو كفار ہيں ان كے ليے ہم نے دردناك عذاب تيار كر ركھا ہے النساء ( 160 – 161 ).
بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى يہوديوں كے ساتھ خريدوفروخت كيا كرتے تھے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو آپ كى درعہ ايك يہودى كے پاس غلہ كے بدلہ ميں گروى ركھى ہوئى تھى جو آپ نے اس سے خريدا تھا.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2916 ).
اس طرح اس سے يہ بھى معلوم ہوا كہ مباح اور جائز بلڈنگ بنانے والے كو سيمنٹ، سريا، اور ريت اور بجرى وغيرہ فروخت كرنا بھى جائز ہے، چاہے مالك سودى كاروبار بھى كرتا ہو.
ہم آپ كے حلال روزى تلاش كرنے اور اس كى حرص ركھنے پر آپ كے شكر گزار ہيں.
اور اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ ہميں اور آپ كو حرام سے بچا كر اپنے حلال كے ساتھ ہى كفائت سے نوازے، اور ہميں اپنے فضل كے ساتھ دوسروں سے غنى كر دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات