0 / 0
6,24706/11/2018

عقد نکاح میں بیوی کا نام اور بیوی کی صفات بیان نہ ہوں تو کیا نیا نکاح کرنا ہو گا؟

سوال: 82316

میرے عقد نکاح میں نہ تو بیوی کا نام ذکر کیا گیا اور نہ ہی اس کے اوصاف بیان ہوئے، مجھے یہ چیز بہت پریشان کیے ہوئے ہے اور ہر وقت اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ کہیں میرا بیوی سے تعلق غیر شرعی نہ ہو۔

میرا سوال یہ ہے کہ دین اسلام میں تجدید نکاح کی گنجائش ہے؟ تا کہ احتیاطا میرا دل مطمئن ہو سکے اور با الفاظ دیگر یہ کہ آیا صرف سسر کے ساتھ ٹیلی فون پر تجدید نکاح کرنا ہوگا ( کیونکہ میرا سسر اسی ملک میں نہیں ہے جہاں میں اور میری بیوی رہائش پذیر ہیں) میں تجدید نکاح اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔

برائے مہربانی تجدید نکاح کے بارے میں جو بھی طریقہ ہو ضرور بتائیں اور اسی طرح گواہوں کے متعلق بھی معلومات فراہم کریں، آیا گواہ میرے پاس موجود ہوں یا کہ میرے سسر کے پاس   ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

نکاح صحیح ہونے کی شرائط میں زوجین یعنی خاوند اور بیوی کا تعین ضروری ہے، لڑکی کا تعین اس کے نام یا پھر اوصاف یعنی چھوٹی یا بڑی یا اگر عقد نکاح کے وقت وہاں موجود ہو تو اس کی جانب اشارہ کر کے ہو سکتا ہے۔

لہذا اگر عورت کا ولی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہے: میں نے اس سے تیری شادی کی تو عقد نکاح صحیح ہو گا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (7/96)  میں کہتے ہیں:

” نکاح صحیح ہونے کی شرائط میں زوجین کا تعین شرط ہے؛ کیونکہ خرید یا فروخت کردہ چیز کے تعین کی طرح جس کے ساتھ جس کا عقد نکاح ہو رہا ہے ان دونوں کا تعین ضروری ہے۔ پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہاں لڑکی موجود ہو اور ولی کہے میں نے اس کا نکاح تیرے ساتھ کیا، تو عقد نکاح صحیح ہے، کیونکہ تعین میں اشارہ کافی ہے، اور اگر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہے کہ میری بیٹی یا یہ فلانی لڑکی کہے تو یہ تاکید ہوگی۔

اور اگر عقد نکاح کی مجلس میں لڑکی نہیں ہے تو ولی کہے: میں نے اپنی بیٹی کا نکاح تیرے ساتھ کیا، اگر اس کی صرف ایک ہی بیٹی ہے تو یہ عقد نکاح جائز ہے، اور اس کے ساتھ اگر لڑکی کا نام بھی لے تو یہ تاکید شمار ہو گی۔

اور اگر اس کی ایک سے زائد بیٹیاں ہوں اور اس نے نکاح میں ” اپنی بیٹی کا تیرے ساتھ نکاح کیا ” کہنے سے نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوگا جب تک وہ کوئی ایسا وصف وغیرہ بیان نہ کرے جس سے اس کا تعین ہوتا ہو، یا تو وہ نام لے یا پھر وصف بیان کرتے ہوئے کہے: میں نے اپنی بڑی بیٹی کا یا درمیانی یا چھوٹی بیٹی کا تیرے ساتھ نکاح کیا، اور اگر وہ اس کے ساتھ لڑکی کا نام بھی لے تو یہ اس کی تاکید ہوگی ” ختم شد

آپ نے سوال میں یہ واضح نہیں کیا کہ عقد نکاح کے وقت آپ کی بیوی موجود تھی یا نہیں ؟

اور عقد نکاح میں کیا الفاظ بولے گئے تھے ؟

بہ ہر حال اگر بیوی عقد نکاح کی مجلس میں حاضر نہ تھی اور ولی نے کوئی ایسی چیز بیان نہیں کی  جو اسے دوسری بیٹیوں سے ممتاز کرتی ہو تو یہ نکاح صحیح نہیں بلکہ عقد نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؛ اسی طرح اس عورت کو چاہیے کہ عقد نکاح ہونے تک وہ آپ سے پردہ کرے؛ کیونکہ اس صورت میں آپ اس کے لیے اجنبی ہیں۔

دوم:

اگر آپ یقین کر لیں کہ ٹیلی فون پر بولنے والا شخص لڑکی کا والد ہے اور اس کی آواز پہچان رہے ہوں اور آپ کی بات گواہ بھی سن رہے ہوں، تاہم گواہوں کا آپ کے پاس یا پھر سسر کے پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اور آپ کو ایسے عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا اور جن سے راضی ہوتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android