ميرى منگنى كو دو برس ہو چكے ہيں، اور منگنى كے ايك برس بعد نكاح ہو گيا حتى كہ ہمارا ازدواجى گھر تيار ہو جائے ليكن مجھے ميرے خاوند كے ساتھ ايك مشكل درپيش ہے وہ يہ كہ:
ميرا خاوند ميرے ساتھ بغير دخول كيے مكمل ازدواجى معاشرت چاہتا ہے، اور اگر ميں انكار كروں تو وہ خيانت كى دھمكى ديتا ہے، وہ بہت شكى مزاج ہے اور ميرے بارہ ميں شك كرتا رہتا ہے حتى كہ اس نے مجھے گھر سے باہر نكلنا بھى منع كر ديا ہے اور دوستوں سے بات چيت كرنے سے روك ديا ہے، اور مجھے ملازمت ترك كرنے كا كہا ہے كہ اور دليل يہ دى ہے كہ اس طرح ميں حرام ميں پڑنے سے محفوظ رہ سكتى ہوں، حالانكہ ميں نے ايك دن بھى اس كے متعلق نہيں سوچا جو وہ سوچ رہا ہے.
اور اسى طرح وہ ميرے خاندان والوں كا احترام بھى نہيں كرتا، اور ہر وقت ان پر سب و شتم كرتا رہتا ہے، اور ان پر تہمت لگاتا ہے كہ انہوں نے ميرى اچھى تربيت نہيں كى، اور وہ چاہتا ہے كہ ميں اس كى والدہ كو جا كر راضى كروں، اور اگر اس سے كوئى غلطى ہوئى ہے تو پھر اس سے معذرت ضرور كروں حتى كہ وہ راضى ہو جائے.
يہ علم ميں رہے كہ ابھى تك اس نے گھر ميں كوئى بھى چيز تيار نہيں كى، اور ہميشہ مالى مشكلات خراب ہونے كى شكايت كرتا رہتا ہے، اور جب ميں ملازمت كرتى تھى تو اپنى تقريبا آدھى تنخواہ اس پر خرچ كر ديتى تھى، اور وہ مجھ پر اپنے خاندان اور گھر والوں كے ليے تحفوں كى خريدارى لازم كرتا ہے كيا اسے يہ حق حاصل ہے ؟
اور اگر ميں اس كى بات نہ مانوں تو كيا مجھ پر كوئى گناہ لازم آتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميرے سارے گھر والے اور ميرے گردوپيش جتنے بھى ہيں سب كہتے ہيں كہ وہ شخص ميرے ليے مناسب نہيں مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
نكاح كے بعد بيوى كو رہائش ديے بغير استمتاع كرنا
سوال: 82331
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر نكاح ہو گا ہے يا جسے رجسٹر كرانا كہتے ہيں وہ نكاح رجسٹرار كے پاس درج ہو چكا ہے تو اس طرح آپ اس كى بيوى بن چكى ہيں، اور خاوند كے ليے اپنى بيوى سے جس طرح چاہے استمتاع كرنا مباح ہے، ليكن بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنا آپ اس كے سپرد كرے حتى كہ وہ اسے مہر ادا كر دے، اور اس كے ليے مناسب ازدواجى گھر تيار كرے.
ابن منذر رحمہ اللہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند كو دخول سے روك دے حتى كہ وہ اسے اس كا مہر ادا كرے ”
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 200 ).
اور الكاسانى نے ذكر كيا ہے:
” عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنا آپ خاوند كے سپرد اس وقت تك نہ كرے جب تك وہ اس كے ليے رہائش كا انتظام نہيں كرتا “
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 4 / 19 ).
اس مسئلہ ميں شرعى حكم يہى ہے.
ہميں جو خدشہ ہے كہ يہ خاوند آپ كے ليے رہائش كا انتظام كرنے اور ايك مستقل خاندان بنانے كى كوشش ميں غير سنجيدہ ہے، اور وہ صرف آپ سے تعلقات قائم كر كے استمتاع كرنے پر ہى اكتفا كرنا چاہتا ہے، ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس كى بات مان كر اسے اس كا موقع نہ ديں اور اپنا آپ اس كے سپرد مت كريں جب تك وہ آپ كو رہائش بنا كر نہيں ديتا اس طرح اس كو اہتمام اور دخول جلد كرنے اور آپ كى حفاظت كرنے پر ابھارا جا سكتا ہے، كيونكہ اس كى منت سماجت اور آپ كى كمزورى كے باعث جماع و دخول ہو سكتا ہے جس كى وجہ سے حمل ہو جائے اور پھر اس كے نتيجہ ميں بہت برے اثرات مرتب ہونگے يعنى اگر طلاق ہو جائے يا پھر غير اعلانيہ طور پر دخول ہو جسے رخصتى كہا جاتا ہے سے پہلے ہى حمل ہو جائے.
دوم:
اگر آپ كى ملازمت حرام امور سے سالم ہے تو ہم آپ كو يہ ملازمت ترك كرنے كى نصيحت نہيں كرتے، اور نہ ہى آپ كے خاوند كو ملازمت سے روكنے كا حق حاصل ہے جب عقد نكاح ہوا تو آپ ملازمت كر رہى تھيں اور اس نے اسے چھوڑنے كى شرط نہيں ركھى تھى، كم ازكم يہ حال ہے كہ آپ اس ملازمت كو محفوظ ركھيں چاہے كچھ وقتى طور پر چھٹى لے كر اس سے پيچھے ہٹ جائيں يہاں تك كہ آپ كے خاوند كى حالت واضح ہو جائے.
سوم:
خاوند كے دين كے متعلق اچھى طرح پركھنا چاہيے كہ آيا وہ نمازى ہے يا نہيں اور حرام امور سے اجتناب كرتا ہے كہ نہيں اور اس كا اخلاق اسلامى ہو، آپ كے سوال سے تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ وہ شخص اس اعتبار سے اچھا نہيں ہے، اسى ليے وہ آسانى سے آپ كے والدين كو گالياں نكالتا ہے، بلكہ اسى وجہ سے اس كے ليے آپ كو يہ دھمكى دينا بھى آسان لگتا ہے كہ وہ آپ سے خيانت كريگا!!
ہم نہيں جانتے كہ ايك عقلمند شخص جو امور كى قدر كرنے والا ہو اس سے اس طرح كى كلام كس طرح صادر ہو سكتى ہے، تو كيا يہ صحيح ہے كہ يہ بيوى پر دباؤ ڈالنے كے ليے ايك وسيلہ اور ذريعہ ہو ؟ وہ اسے دھمكى دے كہ وہ اس كو سزا دينے كے ليے زنا كا ارتكاب كريگا! يقينا يہ چيز اس كے دين اور عقل ميں بہت زيادہ كمى كى دليل ہے.
اور اگر شادى و نكاح سے قبل اس شخص كے ساتھ شادى كرنے كے متعلق ہم سے مشورہ كيا جاتا تو ہم آپ كو يہى مشورہ ديتے كہ اس سے شادى مت كريں، ليكن جب كہ يہ نكاح ہو چكا ہے تو ہم يہ كہينگے:
اگر تو وہ نماز ميں سستى و كوتاہى كرتا ہے تو آپ كو چاہيے كہ اسے بار بار نصيحت كريں كہ نماز كى پابندى كرے اور اگر وہ اپنى حالت كو نہيں سدھارتا تو آپ اس سے عليحدگى كى كوشش كريں كيونكہ نماز كى پابندى نہ كرنے والے شخص كے ساتھ شادى كرنے ميں آپ كے ليے كوئى خير و بھلائى نہيں.
چہارم:
جب آپ كے سامنے واضح ہو چكا ہے كہ خاوند رہائش تيار كرنے ميں غير سنجيدہ ہے اور وہ آپ كے گھر والوں كے ساتھ بھى اچھا رويہ نہيں ركھتا ـ چاہے وہ نماز كا پابند بھى ہوتا ـ تو ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ اس سے عليحدگى اختيار كر ليں چاہے آپ اپنا كچھ حق چھوڑ كر اس سے خلع ہى كر ليں.
اور پھر آپ نے يہ بھى بيان كيا ہے كہ آپ كے گھر والے اور آپ كے گردوپيش جو بھى ہيں وہ اس رشتہ كو مناسب نہيں سمجھتے غالب طور پر اس مسئلہ ميں گھر والوں كى نظر زيادہ صحيح ہوتى ہے، كيونكہ وہ معاملے كو بنظر غائر ديكھتے ہيں جو نرمى و رحمدلى سے دور ہوتا ہے جس كے باعث بعض اوقات اس معاملہ والا خود حق سے اندھا ہو جاتا ہے، اور گھر والوں كو اس طرح كے امور ميں تجربہ اور علم ہوتا ہے.
اس ليے ہمارى رائے ہے كہ آپ اس سلسلہ ميں اپنے گھر والوں سے مناقشہ كريں اور جو وہ مشورہ ديں اس پر عمل كريں اور اس كے ساتھ ساتھ استخارہ ضرور كريں، كيونكہ استخارہ كرنے والا شخص كبھى نقصان نہيں اٹھاتا، اور مشورہ كرنے والا شخص كبھى نادم نہيں ہوتا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كے غم و پريشانى كو دور كرے، اور آپ كے ليے خير و بہترى فرمائے وہ جہاں بھى ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب