اگر كوئى شخص اپنى بيوى پر طلاق كى قسم اٹھائے كہ اگر اس نے كوئى كام مثلا قطع رحمى كى تو اسے طلاق، خاوند اس وقت شديد غصہ كى حالت ميں تھا اور ہوش و حواس ميں نہ تھا اور اسے يہ بھى ياد نہيں كہ اس نے كيا كہہ رہا ہے اس كا حكم كيا ہو گا ؟
شديد غصہ كى حالت ميں دى گئى اور معلق كردہ طلاق
سوال: 82400
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آدمى كو چاہيے كہ بيوى كے ساتھ جھگڑے ميں وہ طلاق كے الفاظ مت بولے، كيونكہ طلاق كا انجام خطرناك ہے، بہت سارے لوگ طلاق كے معاملہ ميں سستى كرتے ہيں، اور جب بھى بيوى كے ساتھ جھگڑا ہوا طلاق كى قسم اٹھا لى، جب بھى كسى دوست كے ساتھ جھگڑا ہوا تو طلاق كى قسم اٹھالى..
يہ تو اللہ كى كتاب كے ساتھ كھلواڑ كى ايك قسم ہے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اكٹھى تين طلاق دينے كو اللہ كى كتاب كے ساتھ كھيل قرار دے رہے ہيں تو پھر جو شخص اسے اپنى عادت ہى بنا لے اور جب بھى بيوى كو كسى چيز سے روكنا چاہا يا اسے كچھ كرنے كى ترغيب دلانا چاہى تو طلاق كى قسم اٹھالى اس كے بارہ ميں كيا خيال ہے ؟!
محمود بن لبيد بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك ايسے شخص كے بارہ ميں بتايا گيا جس نے اپنى بيوى كو اكٹھى تين طلاق دى تھيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غصہ كى اٹھ كھڑے ہوئے اور پھر فرمايا:
" تمہارے درميان ميرى موجودگى ميں ہى وہ اللہ كى كتاب كے ساتھ كھيل رہا ہے ؟!
چنانچہ ايك شخص كھڑا ہوا اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں اسے قتل نہ كردوں ؟
سنن نسائى حديث نمبر ( 3401 ).
حافظ رحمہ اللہ نے اس كے رجال كو ثقات قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے غايۃ المرام ( 261 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وہ لوگ جو ہر بڑى اور چھوٹى چيز ميں اپنى زبان سے طلاق كے الفاظ نكالتے ہيں بے وقوف اور كم عقل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بھى مخالف ہيں كيونكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہمارى راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا ہے:
" جو كوئى بھى قسم اٹھانا چاہتا ہے تو وہ اللہ كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2679 ).
اس ليے جب مومن قسم اٹھائے تو اسے اللہ عزوجل كى قسم ہى اٹھانى چاہيے، اور پھر قسم كثرت سے نہيں اٹھانى چاہيے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو المآئدۃ ( 89 ).
اس آيت ميں من جملہ تفسير يہ گئى ہے كہ كثرت سے اللہ كى قسميں مت اٹھاؤ.
رہا مسئلہ طلاق كى قسم اٹھانے كا مثلا: اگر تو نے ايسا كيا تو مجھ پر طلاق، يا تم ايسا نہ كرو مجھ پر طلاق، يا اگر ميں نے ايسا كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، اگر تو نے ايسا نہ كيا تو ميرى بيوى كو طلاق اور اس جيسے دوسرے الفاظ كہنا تو يہ اس راہنمائى كے ہى خلاف ہے جس كى ہميں رسول كريم صلى اللہ نے راہنمائى دى ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 2 / 753 ).
دوم:
كسى شخص كا اپنى بيوى كو يہ كہنا كہ: اگر تم نے ايسے كيا تو تجھے طلاق، يا پھر يہ كہا: " اگر تم نے ايسے نہ كيا تو تمہيں طلاق " يہ شرط پر معلق طلاق كہلاتى ہے، جس ميں جمہور فقھاء كا مسلك يہ ہے كہ شرط پورى ہونے كى صورت ميں يہ طلاق واقع ہو جائيگى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اس معلق كردہ طلاق ميں تفصيل ہے جو قائل كى نيت پر منحصر ہوگى اگر تو اس نے اس سے قسم والا مقصد ليا كہ كسى چيز كرترغيب دلانا يا كسى چيز سے منع كرنا، يا كسى كى تصديق كا تكذيب كرنا، تو يہ قسم كے حكم ميں ہوگا اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى بلكہ قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.
اور اگر اس سے طلاق مراد لى گى ہو تو شرط پورى ہونے كى صورت ميں بيوى كو طلاق ہو جائيگى، اور اس كى نيت كا معاملہ تو صرف اللہ تعالى ہى جانتا ہے جس پر كوئى چيز بھى مخفى نہيں، اس ليے مسلمان كو اپنے پروردگار پر حيلہ سازى اور اپنے آپ كو دھوكہ دينے سے اجتناب كرنا چاہيے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" راجح يہى ہے كہ جب طلاق قسم كے معنى ميں استعمال كى جائے مثلا كسى آدمى كا اس سے مراد كئى چيز پر ابھارنا يا پھر كسى چيز سے روكنا يا تصديق كرنا يا تكذيب كرنا يا تاكيد كرنا مراد ہو تو اس كا حكم قسم كا ہوگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جس چيز كو اللہ نے آپ كے ليے حلال كر ديا ہے اسے آپ كيوں حرام كرتے ہيں ؟ ( كيا ) آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور اللہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، تحيقيق اللہ تعالى نے تمہارے ليے قسموں كو كھول ڈالنامقرر كر ديا ہے، اور اللہ تمہارا كارساز ہے اور وہى پورے علم والا حكمت والا ہے التحريم ( 1 – 2 ).
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے تحريم كو قسم بنايا ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور اس شخص نے طلاق كى نيت نہيں كى، بلكہ قسم كى نيت كى ہے، يا پھر قسم كے معنى كى نيت كى، چنانچہ جب وہ اس كو توڑےگا تو اس كے ليے قسم كا كفارہ كافى ہوگا، يہى قول راجح ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 754 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: مجھ پر طلاق تم ميرے ساتھ اٹھو، ليكن وہ اس كے ساتھ نہ اٹھى تو كيا اس سے طلاق واقع ہو جائيگى ؟
كميٹى كے علما كا جواب تھا:
" اگر تو اس كا مقصد طلاق دينا نہ تھا، بلكہ صرف بيوى كو اپنے ساتھ جانے پر ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، صحيح قول كے مطابق خاوند پر كفارہ لازم آ ئيگا.
اور اگر خاوند كا مقصد طلاق دينا تھا اور بيوى نے اس كى بات نہ مانى تو اسے ايك طلاق ہو گئى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
سوم:
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اكثر طور پر طلاق غصہ اور تنگى اور جذبات كى حالت ميں ہوتى ہے، نہ كہ خوشى و رضامندى اور شرح صدر كى حالت ميں، يہ كہ خاوند نے غصہ كى حالت ميں طلاق دى ہے اس كا معنى يہ نہيں كہ طلاق واقع نہيں ہوتى جيسا كہ اكثر لوگوں كا خيال ہے.
ليكن يہ ہو سكتا ہے كہ خاوند كو غصہ آيا ہو اور وہ اپنے ہوش و حواس كھو بيٹھے اور اسے ادراك بھى نہ ہو كہ زبان سے كيا كچھ نكال رہا ہے اسے سمجھتا بھى نہ ہو تو سب علماء كا اتفاق ہے كہ ايسے شخص كى اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى.
ليكن اگر غصہ تو شديد ہو ليكن وہ اس حد تك نہ جائے جس سے ہوش و حواس ہى جاتے رہيں اور ادراك بھى نہ رہے ليكن غصہ شديد ہو كہ وہ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكے اور غصہ اسے طلاق كى طرف لے جائے.
تو اس صورت ميں جمہور علماء كہتے ہيں كہ يہ غصہ طلاق واقع ہونے ميں مانع نہيں ہوگا.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ يہ غصہ بھى طلاق واقع ہونے ميں مانع ہوگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ يہى فتوى ديا كرتے تھے، اور ان شاء اللہ راجح بھى يہى ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ہم نے جمہور فقھاء كے مسلك كى طرف اشارہ اس ليے كيا ہے كہ سائل اور قارئ كو طلاق جيسے الفاظ كى ادائيگى كے خطرہ كا ادراك ہو سكے، چاہے يہ الفاظ غصہ كى حالت ميں بولے گئے ہوں يا عام حالت ميں يہ بہت خطرناك ہيں.
اور پھر ہو سكتا ہے ان الفاظ كو نكالنے كى جلد بازى سے اس كے گھر اور خاندان كا شيرازہ بكھر جائے، اللہ سبحانہ و تعالى سے عافيت و سلامتى كى دعا ہے.
اگر تو اس كى بيوى پر قسم غصہ كى اس حد تك پہنچى ہے تو ان شاء اللہ طلاق واقع نہيں ہوئى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات