ميں امارات سے تعلق ركھتى ہوں رمضان المبارك ميں بذريعہ ہوائى جہاز عمرہ كے ليے گئى اور واپس اپنے ملك آتے ہوئے فلائٹ فجر سے قبل تھى، وقت مقررہ پر عملے كے اركان نے سحرى ختم ہونے كا اعلان كيا كہ فجر كا وقت ہو چكا ہے، تو ميں نے نگاہ دوڑائى كہ نماز فجر كہاں پڑھوں كيونكہ لينڈنگ سے قبل ہى سورع طلوع ہو چكا ہوگا، لہذا راہدارى كے علاوہ كہيں بھى نماز ادا كرنے كى جگہ نہ تھى، جو كہ ايك عورت كے ليے مناسب نہ تھا، اور مجھے ليٹرين جانے كى ضرورت بھى تھى ( ميں نے ہوا روك ركھتى تھى ) ليكن رش كى بنا پر ليٹرين نہ جا سكى، اچانك ميں نے ديكھا كہ مشرق كى جانب افق ميں نارنگى رنگ كى سرخى ہو رہى تھى تو ميں نے جلدى سے اپنى سيٹ پر بيٹھے بيٹھے ہى تكبير كہہ كر نماز شروع كر دى، ميرا غالب خيال يہى ہے كہ قبل ہمارى پچھلى جانب تھا كيونكہ ہم مشرق كى جانب سفر كر رہے تھے، ميں باوضوء تھى تو كيا ميرى اس حالت ميں نماز صحيح تھى يا نہيں، يا مجھے كيا كرنا ہوگا ؟
قيام اور قبلہ رخ ہونے سے عاجز ہونے كى حالت ميں ہوائى جہاز ميں نماز ادا كرنا
سوال: 82536
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
فرضى نماز ميں قيام اور قبلہ رخ ہونا نماز كے اركان ميں شامل ہوتا ہے، بغير كسى عذر ان دونوں كے بغير نماز صحيح نہيں، اور اس ميں اہل علم نے جو معتبر عذر بيان كيے ہيں،ان ميں يہ شامل ہے كہ اگر كوئى شخص ہوائى جہاز ميں سفر كر رہا ہو اور نماز كا وقت نكل جانے كا خدشہ ہو اور وہ نماز ايسى ہو جو اس سے پہلى يا بعد والى نماز كے ساتھ جمع بھى نہ ہو سكتى ہو، اور نمازى قيام اور استقبال قبلہ سے بھى عاجز ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص ہوائى جہاز ميں سفر كر رہا ہے اور اسے قبلہ كے رخ كا بھى علم نہيں، يہ علم ميں ركھيں كہ كسى كو بھى قبلہ رخ كا علم نہيں اور اس شخص نے نماز ادا كر لى ليكن اسے علم نہيں كہ آيا اس نے قبلہ رخ ہو كر نماز ادا كى ہے يا كسى اور رخ كى طرف، تو كيا اس طرح كى حالت ميں اس كى نماز صحيح ہوگى يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” ہوائى جہاز كا مسافر اگر نفلى نماز ادا كرنا چاہے تو جس طرف جہاز كا رخ ہو اسى طرف رخ كر كے نماز ادا كر سكتا ہے، اور اس ميں قبلہ رخ ہونا لازم نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ سفر ميں آپ كى سوارى جس طرف بھى جا رہى ہوتى نماز ادا كر ليتے، ليكن فرضى نماز ميں قبلہ رخ ہونا ضرورى ہے، اور اگر ممكن ہو تو ركوع و سجود بھى ضرورى ہے، اس بنا پر جو شخص بھى ہوائى جہاز ميں ايسا كر سكتا ہو تو وہ ہوائى جہاز ميں نماز ادا كر لے، اور اگر وہ شخص ہوائى جہاز ميں ہے اور ايسى نماز كا وقت ہو گيا جو بعد والى نماز كے ساتھ جمع ہو سكتى ہو مثلا: اگر ظہر كى نماز كا وقت ہو جائے تو وہ اس ميں تاخير كر كے نماز عصر كے ساتھ ادا كر لے، يا پھر نماز مغرب كا وقت ہو جائے اور وہ ہوائى جہاز ميں ہو تو اسے عشاء كى نماز كے ساتھ جمع كر لے.
اگر ہوائى جہاز ميں قبلہ كا رخ بتانے كى علامت نہ ہو تو اس كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ وہ عملہ كے اركان سے قبلہ كا رخ معلوم كرے اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو اس كى نماز صحيح نہيں ” انتہى.
ماخوذ از: مجلۃ الدعوۃ ( عربى) عدد نمبر ( 1757 ) صفحہ نمبر ( 45 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر ميں ہوائى جہاز ميں سفر كر رہا ہوں اور نماز كا وقت ہو جائے تو كيا ميرے ليے ہوائى جہاز ميں نماز ادا كرنى جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” اگر دوران فلائٹ نماز كا وقت ہو جائے اور كسى ائرپورٹ پر فلائٹ لينڈ كرنے سے قبل نماز كا وقت نكل جانے كا خدشہ ہو تو علماء كرام كا اجماع ہے كہ وہ بقدر استطاعت ركوع و سجود اور قبلہ رخ ہو كر نماز ادا كريگا، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تو تم اللہ تعالى كا تقوى اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو التغابن ( 16 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
” جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اپنى استطاعت كے مطابق اس پر عمل كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337 ).
ليكن اگر اسے علم ہو كہ فلائٹ نماز كا وقت نكلنے سے قبل لينڈ كر جائيگى اور اتنا وقت باقى بچےگا كہ نماز ادا ہو سكتى ہو، يا پھر وہ نماز بعد والى نماز كے ساتھ جمع ہو سكتى ہو مثلا ظہر كى نماز عصر، اور مغرب كى نماز عشاء كے ساتھ، يا اسے يہ علم ہو كہ دوسرى نماز كا وقت نكلنے سے قبل ہوائى جہاز اتر جائيگا اور نماز كى ادائيگى كے ليے وقت بچ جائيگا تو جمہور اہل علم ہوائى جہاز ميں نماز ادا كرنے كے جواز كے قائل ہيں كيونكہ وقت شروع ہونے كے بعد حسب استطاعت نماز ادا كرنے كا امر وجوب كے ليے ہے، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے، اور صحيح بھى يہى ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 120 ).
كميٹى سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:
كيا ہوائى جہاز ميں كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے كى قدرت كے باوجود شرم كى بنا پر بيٹھ كر نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” اگر قيام كى قدرت ركھتا ہو تو ہوائى جہاز وغيرہ ميں بيٹھ كر نماز ادا كرنى جائز نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كا عمومى فرمان ہے:
اور تم اللہ تعالى كے ليے باادب كھڑے رہا كرو . البقرۃ ( 238 ).
اور عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت كردہ صحيح بخارى كى حديث كے مطابق كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:
” تم نماز كھڑے ہو كر ادا كرو، اور اگر استطاعت نہ ہو تو بيٹھ كر، اور اگر استطاعت نہ ہو تو پہلو كے بل ”
نسائى كى صحيح سند كے ساتھ روايت ميں درج ذيل الفاظ زيادہ ہيں:
” اگر استطاعت نہ ہو تو ليٹ كر ” انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 126 ).
دوم:
طہارت و پاكيزگى نماز صحيح ہونے كى شروط ميں شامل ہے، آپ نے نماز باوضوء ادا كى ہے اس ليے ان شاء اللہ آپ كى نماز صحيح ہے، ليكن صرف اتنا ہے كہ پيشاب اور پاخانہ يا ہوا شديد ہو تو اسے روك كر نماز ادا كرنى مكروہ ہے، كيونكہ يہ نماز كے خشوع و خضوع اور دل لگا كر نماز ادا كرنے پر اثر انداز ہوتا ہے، ليكن ان شاء اللہ نماز صحيح ہے.
اور اوپر جو كچھ بيان ہو چكا ہے اس كى بنا پر جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:
اگر تو آپ نے قيام اور استقبال قبلہ عاجز ہونے كى بنا پر ترك كيا تو آپ كى نماز صحيح تھى، اور اگر قيام اور استقبال قبلہ كرنا ممكن تھا ليكن آپ نے ترك كر ديا تو آپ كى نماز صحيح نہيں، آپ كو اب دوبارہ ادا كرنا ہو گى.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كا عمرہ قبول فرمائے، اور سوال كرنے كى حرص پر آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب