ميں نے ايك برس يا كچھ زيادہ مدت قبل نذر مانى تھى كہ اللہ كے ليے جانور ذبح كر كے گھر والوں اور رشتہ داروں اور مسكينوں كو كھلاؤنگا، ميرے پاس اس كے تقريبا رقم جمع ہونے كے قريب ہے تو كيا ميرے ليے عيد الاضحى كے ايام ميں يہ نذر پورى كرنى جائز ہے ؟
اور كيا ميں اس گوشت ميں سے اپنے چھوٹے سے خاندان كو بھى دے سكتا ہوں، اور نذر صحيح اور قبول ہونے كى شروط كيا ہيں ؟
مسكينوں كے مانى گئى نذر سے خود كھانے كا حكم
سوال: 82667
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
يہ نذر اطاعت و اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے تحت آتى ہے، اس ليے اسے پورا كرنا واجب ہے چاہے يہ نذر مطلق ہے يا كسى شرط پر معلق، مطلق يہ ہے كہ مثلا انسان يہ كہے: ميں نذر مانتا ہوں، يا ميں اللہ كے ليے ايك بكرا ذبح كر كے اسے فقراء يا اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كرونگا.
اور كسى شرط پر معلق اس طرح ہے كہ: اگر اللہ تعالى نے مجھے شفايابى سے نوازا، يا ميں كامياب ہوا، يا ميں نے تنخواہ لى، يا مجھے اتنى رقم ملى تو ميں بكرا ذبح كر كے تقسم كرونگا الخ.
اس نذر كو درج ذيل فرمان بارى تعالى كى بنا پر پورا كرنا واجب ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى نہ كرے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).
اور جب آپ نے نذر پورى كرنے كے وقت كى تعيين نہيں كى تو آپ كے كسى بھى وقت نذر پورى كرنى جائز ہے، عيد الاضحى كے ايام ميں يا كسى اور دن بھى پورى كر سكتى ہيں.
ليكن اگر آپ اس سال قربانى كرنا چاہيں، تو نذر كا جانور قربانى كے ليے بھى كفائت نہيں كريگا، چاہے آپ اسے عيد الاضحى كے ايام ميں بھى ذبح كر ليں.
دوم:
جس نے بھى يہ نذر مانى ہو كہ وہ اپنے اہل و عيال اور رشتہ داروں اور مسكينوں كو دےگا تو اس كا چھوٹا خاندان مثلا بيوى اور اس كى اولاد اس ميں شامل ہوگا، كيونكہ يہ اس كے اہل و عيال ميں شامل ہوتے ہيں، ليكن اگر اس نے انہيں شامل نہ كرنے كى نيت كى ہو تو پھر معاملہ اس كى نيت كے مطابق ہوگا.
ليكن نذر ماننے والا شخص خود اپنى نذر ميں سے كچھ نہيں كھا سكتا اور اگر وہ اس ميں كھائے تو اس كى قيمت مسكين كو ادا كرےگا، يعنى جتنا اس نے كھايا ہو اس كے حساب سے مسكين كو قيمت ادا كردے.
فقھاء رحمہم اللہ نے بيان كيا ہے كہ نذر ميں سے خود كچھ نہ كھائے.
ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 616 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 3 / 288 ).
نذر ميں سے خود نہ كھانے كى فقھاء كرام نے علت يہ بيان كى ہے كہ مثلا جب مسكينوں كو كھلانے كے ليے جانور ذبح كرنے كى نيت مانے تو يہ ان كے ليے متعين ہو گيا ہے، لہذا وہ كچھ بھى اس سے نہيں لے سكتا.
ديكھيں: المنتقى تاليف الباجى ( 2 / 318 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” اور نذر ماننے والے شخص كے ليے نذر ميں سے كچھ كھانا جائز نہيں كيونكہ يہ صدقہ ہے، اور صدقہ سے كھانا جائز نہيں، يہ تو بالمجملہ ہے، كيونكہ نذر مانے گئے جانوروں ميں اختلاف ہے.
اور اسى طرح وہ مطلق نذر جو مسكينوں كے ليے ـ نہ تو لفظاً اور نہ ہى نيت ميں ـ متعين اور خاص كى گئى ہو مالكيہ اور بعض شافعيہ كے ہاں اس ميں سے كھانا جائز ہے ” انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 117 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب