0 / 0

وكيلوں كے آفس ميں كمپوزنگ كا كام كرنا

سوال: 82799

كيا وكيلوں كے آفس ميں كمپوزنگ كا كام كرنا جائز ہے، ميرے علم كے مطابق يہ وكيل مجرموں كا بھى دفاع كرتے ہيں، اور ميں يہ برائى والى اشياء كى رپورٹ كمپيوٹر پر لكھ كر تيار كرتا ہوں تو كيا اس كا گناہ مجھ پر بھى ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

وكالت كے پيشہ ميں كام ميں مقدمہ اور حالت كے پيش نظر جائز بھى ہے اور حرام بھى ہو سكتا ہے، اگر تو وكيل مظلوم شخص كى مدد و نصرت كريں، اور كسى كا جائز حق دلوائيں تو يہ جائز ہے، بلكہ مستحب ہے، اور اگر وكيل باطل كى مدد و نصرت كريں، يا ظلم ميں تعاون ہو، يا پھر جھوٹ و دھوكہ پر اعتماد كيا جائے تو يہ حرام ہے.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9496 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور اسى بنياد كو سامنے ركھ كر وكيل كے آفس ميں كمپوزنگ وغيرہ كے كام كا حكم ہوگا، كيونكہ يہ ان امور ميں ہى شامل ہوتا ہے جس سے وكيل معاونت حاصل كرتے ہيں، تو جہاں وكالت جائز ہو گى وہاں اس ميں استعمال ہونے والے وسائل بھى جائز ہونگے، اور اس كے برعكس كا معاملہ بھى برعكس ہوگا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو يقينا اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اگر آپ كو يہ علم ہو جائے كہ وہ لوگ مجرموں كا دفاع كرتے ہيں اور آپ سے ان كى رپورٹ اور دستاويز تيار كرنے كا كہا جائے تو آپ كے ليے يہ تيار كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ گناہ و معصيت ميں معاونت، اور منكر و برائى كا اقرار، اور اس ميں مشاركت ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جس كسى نے بھى كوئى برائى ديكھى تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے اگر وہ اس كى استطاعت نہيں ركھتا تو وہ اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں تو پھر اپنے دل سے روكے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

اور مجرم كا دفاع كرنا، اور اسے پناہ چھپاؤ فراہم كرنا، اور اس كى معاونت و نصرت عام اور خاص جرم ميں شامل ہوتا ہے، عام جرم اس طرح كہ وہ امت اور معاشرے كے حق ميں ہے؛ كيونكہ ايسا كرنے سے مجرموں كى تعداد زيادہ ہو گى اور وہ پھيل جائينگے، اور ان كا سزا سے بچ جانا اور دور رہنے ميں بہت ہى برے اثرات ہيں جو كسى پر مخفى نہيں، اور خاص اس طرح كہ اگر وہ معاملہ كسى معين اور خاص شخص كے ساتھ معلق ہے تو اس حالت ميں مظلوم كے حق ميں خاص جرم ہو گا.

اور ظلم اور جرم ميں ہر قسم كى معاونت كرنى حرام ہے، چاہے وہ كوئى دستاويز وغيرہ تيار كر كے كى جائے يا اسے پرنٹ كر كے يا لكھ كر دى جائے، يا ان كى جانب سے دفاع كيا جائے، يا كسى اور قسم كى معاونت.

آپ كو چاہيے كہ ان لوگوں كو نصيحت كريں، اور آپ خود اس قسم كى دستاويز چھاپنے ميں شريك نہ ہوں جس ميں آپ كو علم ہو كہ يہ باطل كا دفاع ہے، اگر تو آپ كى بات تسليم كر لى جائے تو الحمد للہ، وگرنہ آپ كوئى اور كام تلاش كر ليں، جس ميں آپ گناہ و معصيت سے محفوظ رہيں اور اس سے آپ كو حلال روزى حاصل ہو.

ہم اللہ تعالى سے آپ كے ليے توفيق اور اہنمائى كى دعا كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android