ايك شادى شدہ عورت كے خاوند نے بيوى كى ماں سے كئى بار زنا كا ارتكاب كيا ہے، بيوى كو معلوم نہيں ہو رہا كہ وہ ماں كے ساتھ كيا كرے اور خاوند كے ساتھ كيا سلوك كرے، وہ ا اس معاملہ سے بہت پريشان ہے اسے كيا كرنا چاہيے ؟
نكاح سے قبل اور بعد ميں ساس سے زنا كرنے كے شرعى اثرات
سوال: 83034
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كسى شخص كو حق نہيں كہ وہ كسى دوسرے پر زنا كے ارتكاب كا دعوى كرے، الا يہ كہ جب تك شرعى طريقہ سے اس كا ثبوت نہ مل جائے اور شرعى طريقہ يہ ہے كہ يا تو وہ خود زنا كا اعتراف كرے، يا پھر چار عادل گواہ زنا ہونے كى گواہى ديں جس نے بھى كسى دوسرے كى طرف بغير كسى دليل كے زنا كے ارتكاب كى نسبت كى تو وہ اس پر بہتان لگا رہا ہے جو كہ كبيرہ گناہ ہے، اور ايسا كرنے والے كو حد قذف ميں اسى كوڑے لگائے جائينگے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو لوگ پاكدامن مومن عورتوں پر بہتان لگاتے ہيں اور پھر چار گواہ پيش نہيں كرتے تم انہيں اسى كوڑے لگاؤ اور ان كى كبھى بھى گواہى قبول نہ كرو اور يہى فاسق لوگ ہيں مگر وہ جو اس كے بعد توبہ كر ليں اور اپنى اصلاح كريں يقينا اللہ تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے النور ( 4 – 5 ).
دوم:
اگر سوال كرنے والى كے ہاں وہ كچھ ثابت ہو جو اس نے سوال ميں بيان كيا ہے كہ خاوند نے اپنى ساس كے ساتھ زنا كا ارتكاب كيا ہے تو يہ علم ميں ہونا چاہيے كہ وہ دونوں اللہ كے عذاب اور ناراضگى كے مستحق ہيں، اور انہيں دنيا ميں بھى سزا ہو گا.
عورت كو اس ليے كہ وہ شادى شدہ ہے اور وہ رجم كى مستحق ہے، يعنى پتھر مار مار كر اسے ہلاك كر ديا جائے، اور وہ شخص اگر تو وہ زنا كے وقت شادى شدہ تھا تو اسے بھى رجم كيا جائيگا، اور اگر وہ شادى شدہ نہ تھا، بلكہ اس نے شادى سے قبل زنا كيا تو اسے ايك سو كوڑے مارے جائينگے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
زانى عورت اور زانى مرد ميں سے ہر ايك كو ايك سو كوڑے مارو، اور تمہيں اللہ كے دين ميں ان سے كوئى نرمى نہيں برتنى چاہيے، اگر تم اللہ اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، اور چاہيے كہ ان دونوں كو سزا كے وقت مومنوں كا ايك گروہ وہاں موجود ہو النور ( 2 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس مسجد ميں آيا اور آ كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے زنا كر ليا ہے ـ يعنى اپنى مراد لے رہا تھا ـ چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ دوسرى طرف كر ليا، تو وہ شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے آيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے زنا كا ارتكاب كيا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پھر اعراض كر كے منہ دوسرى طرف كر ليا، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے آ گيا، جب اس شخص نے اپنے خلاف چار گواہى ديں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمايا:
كيا تم پاگل ہو ؟ تو اس نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نہيں ميں پاگل نہيں ہوں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم شادى شدہ ہو ؟ تو اس نے عرض كيا جى ہاں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے لے جاؤ اور اسے رجم كر دو “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6439 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1691 ).
المحصن: اسے كہا جاتا ہے جس كى شادى اور دخول ہو چكا ہو، چاہے شادى كے بعد طلاق ہو جائے يا پھر خاوند يا بيوى فوت ہو چكى ہو.
بلكہ امام احمد ـ ايك روايت ميں ـ كا كہنا ہے:
ايسا كرنے والے كو ہر حال ميں قتل كر ديا جائيگا، يعنى جس نے كسى محرم عورت سے زنا كيا تو اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ، اور چاہے وہ محرم نسب ميں سے ہو يا سسرالى محرم يا رضاعت كے اعتبار سے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جابر بن زيد اور اسحاق اور ابو ايوب اور ابن ابى خيثمہ كا بھى يہى كہنا ہے ” اھـ
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 12 / 341 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگر بدكارى محرم كے ساتھ ہو تو يہ تو بالكل انتہائى تباہى ہے، امام احمد وغيرہ كے ہاں ايسا كرنے والے كو ہر حالت ميں قتل كيا جائيگا ”
ديكھيں: روضۃ المحبين ( 374 ).
آيا بيوى كى ماں كے ساتھ زنا كرنے سے بيٹى كے ساتھ نكاح كى حرمت واجب ہوتى ہے يا كہ موجود شدہ نكاح فسخ ہو جائيگا:
اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے اور راجح يہى ہے كہ اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى اور نہ ہى نكاح فسخ ہوتا ہے.
ہم نے اس مسئلہ كو تفصيل كے ساتھ سوال نمبر ( 78597 ) كے جواب ميں بيان كيا ہے اس كا مطالعہ كريں.
سوم:
اب بيوى كے ذمہ يہ واجب ہے كہ:
1 ـ اس معاملہ پر اس وقت تك كوئى احكام يا تصرفات مت بنائے جب تك كہ اس زنا كى قطعى ثبوت نہ مل جائے.
2 ـ اپنى ماں كو نصيحت كرے ـ اگر زنا كا دعوى ثابت ہو جائے تو پھر ـ كہ وہ سچى توبہ كرے، اسے توبہ كى ضرورت ہے.
3 ـ اگر واقعتا نكاح كے بعد اس كى ماں كے ساتھ زنا ہوا ہے تو اپنے خاوند كو نصيحت كرے كہ وہ اس جرم سے سچى توبہ كرے، اور اس كى ضرورت ہے كہ وہ اپنى ماں سے رہائش دور لے جائے، اور ملاقات ميں بھى كمى كرے حتى كہ اس فعل ميں تكرار نہ ہو سكے، اور اگر وہ توبہ نہيں كرتا تو طلاق لينے كى كوشش كرے، اور اس كے ليے خاوند سے ساتھ باقى رہنا حلال نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے عفت و عصمت كى مالك مومنہ عورت كا ايك زانى مرد سے نكاح حرام كيا ہے.
ہميں اس كا قوى ادراك ہے كہ ہمارى اس عزيز بہن كو كتنى شديد قسم كى آزمائش كا سامنا ہے، جب كسى بيوى كا خاوند زنا كا مرتكب ہوتا ہے تو عورت كو كتنى تكليف ہوتى ہے اور اس پر يہ چيز كتنى شاق گزرتى ہے!!
اور اس سے بھى زيادہ تكليف تو اس وقت ہوتى ہے اور دل اور نفس غيض و غضب كاہزار بار شكار ہوتا ہے جب زنا بيوى كى ماں سے كيا جائے!! تو پھر اس كى ماں سے زنا كرنے والا اس كا اپنا محبوب خاوند ہو يہ بہت بڑى آزمائش اور تكليف دہ چيز ہے .
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس كے غم اور تكليف كو دور كرے، اور اسے صبر و حكمت عطا فرمائے.
اور ہم يہ نصيحت كرتے ہيں كہ ـ وہ اپنى زندگى كے بارہ ميں كوئى بڑا فيصلہ كرنے سے قبل ـ اس كے انجام كے بارہ ميں ا چھى طرح غور و فكر كر لے:
جب وہ اپنے خاوند سے عليحدگى كا فيصلہ كرے گى تو اس وقت ممكن ہے وہ گھر ميں اپنى ماں كے ساتھ رہے، اور اسى ماں نے يہ سب كچھ كيا ہے، اور پھر اس كے گھر كى خرابى و تباہى اس كے ہاتھ پر ہو؟!
ہمارے خيال ميں ـ اگر اس كے پاس كو اچھا اور مناسب ٹھكانہ اور شرعى محرم نہ ہو جو اس كى ديكھ بھال كرے اور اس كى حالت سنوارے ـ تو اس كا اپنے خاوند كے ساتھ ہى رہنا مناسب ہے، اور وہ خاوند كو توبہ كرنے كى نصيحت كرتى رہے، اور پھر اس پر استقامت طلاق لينے اور ماں كے گھر ميں ماں كے ساتھ رہنے سے آسان و بہتر ہے!!
ہمارى اس عزيز بہن كو فيصلہ كرنے سے قبل نتائج كا موازنہ ضرور كرنا چاہيے، اور پھر ايك شر دوسرے سے كم اور آسان ہوتا ہے!!
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات