ايك شخص يورپى ممالك كى طرف ہجرت كر كے گيا اور وہاں رہائشى پرمٹ حاصل كرنے كے ليے ايك عيسائى عورت سے شادى كى، اس كى ايك بچى بھى ہوئى، شادى كے ابتدائى برس تو اس نے گمراہى ميں ہى برس كر ديے، وہ بيوى پر ظلم و ستم كرتا اور بچى كو بھى اذيت ديتا گويا كہ وہ اس كے كچھ نہيں لگتے.
اللہ تعالى نے اس كى بيوى كو ہدايت دى چنانچہ اس نے اسلام قبول كر ليا، ليكن خاوند كى حالت ميں كوئى تبديلى پيدا نہ ہوئى اور وہ اب تك زنا اور گناہوں كا ارتكاب كرتا ہے، اور گھر كے اخراجات بھى ادا نہيں كرتا، نہ تو بيوى كو رقم ديتا ہے اور نہ ہى كھانا لا كر ديتا ہے.
بلكہ وہ زبردستى بيوى كے خرچ پر رہتا ہے، ليكن وہ مسكين ہر ظلم پر صبر و تحمل كرتى ہے كيونكہ اس كے اور بھى دو بچے ہيں، اور وہ اپنا گھر خراب نہيں كرنا چاہتى، اور اللہ سے اميد ركھتى ہے كہ اللہ تعالى اس كے خاوند كو ہدايت ضرور دےگا.
عورت كے خاندان والوں كا خيال ہے كہ اجنبى لوگ اور اسلام ان كى بيٹى كى تباہى كا سبب ہيں، كيا آپ كوئى نصيحت كريں گے يا آپ كے پاس كوئى ايسا طريقہ ہے جو اس شخص كو صحيح راہ دكھا سكے، اور اس سلسلہ ميں اسلامى حكم كيا ہے ؟
بيوى نے اسلام قبول كر ليا تو خاوند اسے اذيت ديتا اور برا سلوك كر تا ہے
سوال: 83044
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس بہن كے اسلام قبول كرنے پر ہم اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسے حق پر ثابت قدم ركھے، اور قول و فعل ميں اسے صحيح راہ دكھائے.
اس بہن نے جو بيان كيا ہے وہ اسلام كى آزمائش ہے ـ اگر تعبير صحيح ہو ـ كہ اپنے اہل و عيال كے ساتھ جو اسلام كى طرف منسوب تو ہيں ليكن اسلامى احكام اور آداب كى مخالفت كر رہے ہيں يعنى اس كا خاوند مسلمان تو ہے ليكن اسلامى احكام كى مخالفت كر رہا ہے، پھر اگر يہ مخالفت اسلامى ملك ميں ہوتى تو اور بات تھى، كيونكہ وہاں دين ظاہر ہوتا ہے، اور دين اسلام پرعمل كرنے والے معروف ہوتے ہيں؛ اس ليے كسى دوسرے كى غلطى پر مؤاخذہ نہيں كيا جاتا، اور نہ كسى غلط كام كرنے والے كى بنا پر اسلام كو طعن كيا جاتا ہے، اگر ايسا ہوتا تو يہ آسان اور ہلكا تھا يعنى اسلامى ملك ميں.
ليكن مصيبت تو يہ ہے كہ جب انسان يورپى ممالك ميں ہو اور كافروں كے درميان رہے اور دين اسلام كى مخالفت كرتا ہو تو كافر لوگ اسے دين اسلام كى صورت خيال كرينگے، اور دين اسلام كے اخلاق اور آداب و احكام كى تصوير سمجھيں گے پھر يہ شخص مسلمان ہو كر بالكل ويسى ہى زندگى بسر كرتا ہو جيسے يہودى اور عيسائى رہ رہے ہوں، نہ تو اسے حلال كى پرواہ ہو اور نہ ہى حرام كى.
امام اوزاعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يہ كہنا چاہيے كہ: ہر مسلمان شخص اسلام كى حد پر كھڑا پہرہ دے رہا ہے اور وہ اس كا چوكيدار ہے، لہذا جو يہ كر سكتا ہے كہ كى اس كى جانب سے كوئى نقب نہ لگائے ت واسے ايسا ضرور كرنا چاہيے ”
اور حسن بن حي رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” مسلمان تو ايك قلعہ كى مانند ہيں؛ اس ليے جب كوئى مسلمان بدعت كرتا ہے تو اس كى جانب سے اسلام ميں نقب لگائى جاتى ہے؛ اور اگر سب مسلمان بدعاتك رنے لگيں تو تم اس پر قائم رہو جس پر اگر سب مسلمان لوگ قائم رہتے جس پر قائم رہنے كا اللہ نے اپنى مخلوق كو حكم ديا ہے تو اللہ كا دين قائم رہتا، آپ كى جانب سے اسلام ميں نقب نہ لگائى جائے!!
ديكھيں: السنۃ تاليف محمد بن نصر المروزى نمبر ( 29 – 30 ).
ہر مسلمان شخص كے دل ميں يہ ہونا چاہيے كہ وہ اسلام قبول كرنے والى بہنوں كو ايذاء و تكليف نہ دے نہ تو قولى ضرر ديں اور نہ ہى فعلى ضرر ان لوگوں سے صادر ہو جن كے متعلق مفروض تو يہ ہے كہ وہ اسلام كى ايك بہتر اور اچھى تصوير پيش كريں، اور ايك مسلمان خاندان كا اچھا تصور پيش كرتے جس كے افراد ميں محبت و مودت اور رحمدلى پائى جاتى ہو.
افسوس ہے كہ اسلام كى طرف منسوب اس طرح كے خاوند بہت برى مثال پيش كرتے ہيں اور دوسروں كے ليے ايك برا نمونہ بنتے ہيں، اور دين اسلام سے متنفر كرنے اور دين اسلام ميں طعن و تشنيع كرنے كا باعث بنتے ہوئے اسلام كى ساكھ خراب كرتے اور اسلام كى شہرت كو نقصان ديتے ہيں.
اور اگر اس خاوند كے افعال ميں نماز ترك كرنا بھى شامل ہے تو ہم اپنى اس محترم و فاضلہ بہن كے علم ميں لانا چاہتے ہيں كہ اس كے ليے اس شخص كے ساتھ رہنا حلال نہيں؛ كيونكہ نماز ترك كرنا شريعت اسلاميہ ميں كفر مخرج عن الملۃ كہلاتا ہے اس طرح يہ نكاح فسخ ہو جائيگا.
اور اس طرح كا خاوند اپنے خاندان كا سربراہ بننے كا اہل نہيں رہتا جس سے اس كى بيوى اور بچوں پر امن كى ضمانت ہو، بلكہ اس سے تو خدشہ ہے كہ وہ اپنے برے افعال كى بنا پر ان پر بھى اثرانداز ہوگا.
اور اگر وہ شخص بيوى اور بچوں كے اخراجات بھى برداشت نہيں كرتا حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو اس پر بيوى بچوں كى رہائش اور كھانے پينے اور لباس وغيرہ كے اخراجات واجب كيے ہيں، اس طرح تو اس نے اپنے اندر صفاتى اور افعال سب كى برائى جمع كر لى ہے.
چنانچہ اس حالت ميں اس شخص كے ساتھ رہنا بہت ہى ناقابل برداشت اور بوجھ ہے جو بيوى بغير كسى سبب كے برداشت كر رہى ہے، اگر وہ اس سے طلاق حاصل كر كے خلاصى پائے تو اس كے ليے ايسے شخص سے عليحدگى ہى بہتر اور افضل ہے، ہو سكتا ہے اس كى زندگى اچھى ہوجائے يا اپنى اولاد كے ساتھ اكيلى رہ كر بہتر زندگى بسر كرے، يا پھر كسى دوسرے خاوند كے ساتھ جو خاندان كى قدر و قيمت جانتا ہو، اور اللہ تعالى نے جو كچھ ايك خاوند پر واجب كيا ہے وہ اس كى ادائيگى كرے.
عزيز بہن كو چاہيے كہ اگر تو وہ اپنے خاوند كى ہدايت كى اميد ركھتى ہے اور اصلاح ہو سكتى ہے تو وہ اپنے خاوند كے دوست و احباب اور رشتہ داروں كے ذريعہ اصلاح كى كوشش كرے ہو سكتا ہے ان لوگوں كے ليے اسے تبديل كرنا ممكن ہو اور وہ اسے ہدايت كى راہ دكھانے كا سبب بن جائيں.
اس كے ليے ممكن ہے كہ آپ اس كے ليے آڈيو اور ويڈيو كيسٹ والى تقارير جن ميں معصيت و گناہوں سے اجتناب كرنے اور موت و قبر اور حساب و كتاب اور قيامت كا ذكر بيان كيا گيا ہو كو بطور وسيلہ استعمال كريں ہو سكتا ہے اس كا اثر ہو اور وہ اپنے پرودگار كى طرف رجوع كر لے.
اور اگر اس سے بھى كوئى فائدہ نہ ہو تو پھر آپ كو مسلمان قاضى كے سامنے اپنا مقدمہ پيش كرنے ميں تردد نہيں كرنا چاہيے يا پھر كسى مفتى يا امام مسجد جن كا علم و دين ثقہ ہو ان كے سامنے پيش كريں تا كہ اس كے چھٹكارہ كى كوئى راہ نكل سكے.
اگر يہ بھى نہ ہو سكے تو پھر اس بہن كو چاہيے كہ وہ اپنا معاملہ كسى ايسے ادارہ كے سامنے پيش كرے جو اسے اس سے چھٹكارا دلائيں چاہے وہ خاندان كى ديكھ بھال كا ادارہ ہو يا عدالت يا كوئى اور انٹرنيشنل ادارہ.
اگر تو وہ تارك نماز ہے تو پھر عقد نكاح فسخ شمار ہوگا اور اگر تارك نماز كے ساتھ وہ يہ معصيت و گناہ كا مرتكب بھى ہے تو پھر ہمارى اس بہن كو اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے كسى عالم دين يا مركز اسلامى كے ذريعہ شرعى طريقہ اختيار كرنا چاہيے تا كہ وہ اس پر بيوى بچوں كے اخراجات لازم كريں اور اس كے ساتھ ساتھ معاصى و منكرات كو ترك كرنے كا كہيں، اور اگر وہ انكار كرے تو شريعت اسلاميہ كے مطابق وہ اس سے طلاق لے كر ديں اور پھر قانونى كاروائى كر كے اس سے بيوى ہونے سے بھى خلاصى كرائى جائے.
اس عزيز بہن كو حرص ركھنى چاہيے وہ كسى اسلامى ملك منتقل ہو جائے ـ چاہے وہاں شريعت كى مخالفت ہوتى ہے ـ كيونكہ وہ ايك غير اسلامى اور كفريہ ملك سے بہتر ہے، جس ميں رہ كر ايك مسلمان شخص اپنے ليے بھى سلامتى و امن طلب نہيں كر سكتا اور نہ ہى اولاد كے ليے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس عورت كو اجر عظيم عطا فرمائے، اور اسے اور اس كى اولاد كو اپنى رضا و خوشنودى والے اعمال كرنے كى توفيق دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب