امام كو دوران نماز ياد آيا كہ اس نے وضوء ہى نہيں چنانچہ نماز توڑى اور كسى مقتدى كو نائب بنا ديا، امام نے ايك ركعت ادا كر لى تھى نائب امام نے باقى نماز مكمل كروائى، امام نے جا كر وضوء كيا اور نماز دوبارہ ادا كى، كيا امام كا ايسا كرنا صحيح ہے، يہ علم ميں رہے كہ امام شافعى المسلك ہے ؟
اگر امام كو وضوء ٹوٹ جائے، يا دوران نماز ياد آئے كہ وہ بغير وضوء كے ہے تو نائب بنانا جائز ہے
سوال: 83110
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام كا نماز سے نكلنا، اور كسى مقتدى كو نائب مقرر كرنا، اور نائب كا امام كى باقى مانندہ نماز مكمل كروانا يہ سب عمل صحيح ہے.
اس حالت ميں كسى دوسرے كو نائب بنانے كے جواز كا قول احناف، مالكيہ، شافعيہ جمہور علماء كرام اور امام احمد كى ايك روايت ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: جب امام عمدا حدث، يا پہلے سے حدث، يا بھول جانے يا كسى اور سبب كے باعث نماز سے نكل جائے، يا بغير كسى سبب كے تو كسى كو نائب بنانے كے جواز ميں دو مشہور قول ہيں:
نيا قول صحيح ہے، صحيح حديث كى بنا پر ايسا كرنا جائز ہے، صحيحين ميں حديث مروى ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو عمرو بن عوف كے مابين صلح كروانے گئے تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كو نماز پڑھائى، اور دوران نماز ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لے آئے تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ پيچھے ہو گئے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى جگہ لے لى ”
انتہى مختصرا ماخوذ از المجموع للنووى ( 4 / 137 ).
الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” الشرح الممتع ” ميں كہتے ہيں:
” دوران نماز جب امام كو ياد آئے كہ وہ بغير وضوء ہے تو اس پر نماز سے نكلنا اور كسى دوسرے كو نائب بنانا واجب ہے تا كہ وہ انہيں نماز مكمل كروائے، كيونكہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى كو جب ابو لؤلؤ مجوسى نے خنجر مارا تو وہ نماز فجر شروع كر چكے تھے، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كا ہاتھ پكڑ كر آگے كيا تو انہوں نے ہلكى سى نماز پڑھائى ”
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور يہ عمل صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم كى موجودگى ميں ہوا، اور اگر وہ ايسا نہ كرے، اور نماز سے نكل جائے ـ يعنى وہ كسى كو نائب نہ بنائے ـ تو مقتديوں اختيار ہے كہ ان ميں سے كوئى آگے بڑھ كر نماز مكمل كروائے، يا پھر وہ انفرادى طور پر ہى نماز مكمل كر ليں ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 243 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب