ميں ايك ايسى كمپنى ميں ملازم ہوں جو پانچ اداروں كى ملكيت ہے جس ميں دو سودى بنك بھى ہيں، اس كمپنى كى ملكيت ميں زمين كا ايك ٹكڑا ہے، اور كمپنى بجلى پانى وغيرہ كے نفع كو داخل كر كے اسے سرمايہ كاروں ميں تقسيم اور فروخت كرتى ہے، اور فروخت كى كيفيت يہ ہے كہ يا تو فورى فروخت يا پھر سالانہ فكس فوائد كے حساب سے قسطوں ميں جو تقريبا سات فيصد سالانہ تك پہنچتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ بعض اوقات فروخت كرنے كا عمل موقوف ہو جاتا ہے.
اور كمپنى ميں ميرا كام آفس سيكٹرى كى حيثيت سے ہوتا ہے، ميں نے كمپنى ميں پانچ سالہ ملازمت ميں مال جمع بھى كيا اور خرچ بھى، ليكن مجھے اس مال ميں شبہ كا علم نہيں تھا ميں نے اپنى رقم ايك اسلامى بنك ميں جمع كروا ركھى ہے، تو كيا ميرى اس حلال اور حرام مال سے مختلط كمپنى ميں ملازمت حلال ہے يا حرام ؟
اور ميں نے جو مال جمع كيا ہے اس كا حكم كيا ہے، اور ميں اس ميں كس طرح تصرف كر سكتى ہوں ؟
اور اگر صرف يہ كام مكروہ ہے تو كيا يہ جہنم ميں داخل كريگا يا كہ اس كے سبب سے مجھے عذاب سے دوچار ہونا پڑےگا ؟
اس كے متعلق مجھے معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، كيونكہ ميں بہت ہى زيادہ پريشان ہوں.
مختلف اداروں جن اور سودى بنك كى مملوكہ كمپنى ميں ملازمت كرنے كا حكم
سوال: 83999
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جمہور علماء كے ہاں مخلوط اموال والوں كے ہاں كام اور ملازمت كرنا مكروہ ہے حرام نہيں، ليكن اگر وہ كام فى نفسہ حرام ہو، يا پھر كسى حرام كام ميں اس سے معاونت ہوتى ہو تو وہ كام بھى حرام ہو گا، مثلا كسى سودى بنك ميں ملازمت كرنا.
اور مكروہ حرام نہيں، اور مكروہ كام كا مرتكب شخص گنہگار نہيں ہوتا، اگرچہ اسے ترك كرنا اور اس پر عمل نہ كرنا اور اس سے اجتناب كرنا اولى اور بہتر ہے، اور اسے چھوڑ كر كوئى صاف ستھرا كام تلاش كرنا چاہيے.
دوم:
قسطوں ميں خريد و فروخت جائز ہے، ليكن دو چيزوں كى طرف متنبہ ہونا ضرورى ہے:
پہلى:
بيع التقسيط كے معاہدہ ميں يہ شرط نہ ہو كہ اگر قسط ليٹ ہو تو جرمانہ ادا كرنا ہوگا، كيونكہ يہ شرط سود كے ليے ہے، اور اس شرط پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى ايسى شرط والے معاہدہ پر دستخط كرنے جائز ہيں.
دوسرى:
قسطوں ميں چيز اس كمپنى سے لى جائے جو اس كى مالك ہو، اسميں كوئى سودى بنك وغيرہ واسطہ نہ بن رہا ہو، سودى بنك كا ايك معاہدہ ميں شامل ہونے كا مطلب يہ ہوا كہ خريدار كى جانب سے بطور نائب بنك پورى قيمت ادا كريگا، اور پھر وہ يہ قيمت قسطوں ميں وصول كريگا اور حقيقت ميں يہ سودى قرض ہے، تو اس طرح بنك كھاتہ دار كو مثلا ايك سو قرض ديتا ہے، اور وہ خريدار كا نائب بن كر بائع كو اس كى ادائيگى كرتا ہے، اور پھر وہ قسطوں ميں ايك سو بيس واپس ليتا ہے، اور يہ سود اور حرام ہے، جو كہ كسى پر بھى مخفى نہيں.
سوم:
اگر كمپنى زمين جائز بيع كے طريقہ پر فروخت كرتى ہے ـ يعنى سودى بنك كے واسطہ كے بغير ـ تو آپ كا يہ كام جائز ہے، اور اس كام كى جو آپ تنخواہ ليتى ہيں وہ مباح اور جائز ہے، ليكن آپ كے ليے بہتر اور اولى يہى ہے كہ آپ كوئى اور صاف شفاف كام تلاش كريں جيسا كہ پہلے بھى بيان ہو چكا ہے.
اور اگر كمپنى حرام طريقہ سے زمين فروخت كرتى ہے، مثلا خريدار پر يہ شرط ركھى جائے كہ قسط ليٹ ہونے كى صورت ميں جرمانہ ادا كرنا ہو گا، يا قسطوں كى طريقہ كار ميں بنك كا عمل دخل ہو تو يہاں پھر آپ كے كام كى نوعيت ديكھى جائيگى:
اگر تو آپ كے كام ميں حرام كام ميں معاونت ہوتى ہو، يا پھر لكھائى، يا ريكارڈ ركھنا، يا چھان بين كرنا وغيرہ تو آپ كا يہ كام حرام ہے اور اس كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والى تنخواہ حرام ہوگى، اور آپ نے اس كى حرمت كا علم ہونے سے قبل جو تنخواہ لى ہے اس سے آپ فائدہ حاصل كرسكتى ہيں، اور وہ رقم صدقہ كرنا لازم نہيں.
اور جو تنخواہ حرمت كا علم ہونے كے بعد حاصل كى ہے آپ اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے اسے صدقہ كر ديں، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ كو يہ ملازمت اور كام بھى ترك كرنا ہو گا.
اور اگر آپ كا كام كچھ تو مباح اور جائز ہو، اور كچھ حرام تو پھر آپ اس ميں سے حرام كے تناسب كا اندازہ كر كے اس كے بدلے ميں جو تنخواہ بنتى ہے اس سے چھٹكارا حاصل كر ليں.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 81915 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر آپ كے كام ميں حرام ميں معاونت نہيں ہوتى، بلكہ آپ عليحدہ اور الگ تھلگ ہيں جس كا قسطوں ميں خريد و فروخت كے ساتھ تعلق بھى نہيں تو ہميں اميد ہے كہ اس كام ميں آپ پر كوئى حرج نہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق سے نوازے اور آپ كى سيدھے راہ كى طرف راہنمائى فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات