ميں الحمد للہ ايك مسلمان نوجوان ہوں، اور ايك ايسى مسلمان بہن سے شادى كر كے اپنى عفت و عصمت محفوظ ركھنا چاہتا ہوں جو معاشرتى طور پر مجھ سے اوپر ہے، اس ميں شريعت كا حكم كيا ہے ؟
معاشرتى طور پر اپنے سے بلند درجہ والى عورت سے شادى كرنا
سوال: 84306
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر آدمى شادى كے اخراجات اور فورى طور پر مہر كى ادائيگى كرنے پر قادر ہو اور اسى طرح بيوى اور گھر كے اخراجات پورے كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تووہ جمہور كے قول كے مطابق اس عورت كا كفو يعنى برابر كا رشتہ ہے جو مالدارى كو برابرى ہونے ميں شرط لگاتے ہيں مثلا حنفيہ اور حنابلہ اور جو اسے شرط نہيں قرار ديتے مثلا مالكيہ اور شافعيہ.
ليكن يہ شرط لگانا كہ خاوند بھى بيوى كے برابر كا مالدار ہو يعنى اگر بيوى مالدار ہے تو خاوند بھى اسى طرح مالدار ہونا چاہيے يہ قول مرجوح ہے راجح نہيں بعض فقھاء يہى كہتے ہيں بلكہ دليل كہ اعتبار سے راجح يہى ہے كہ كفو و برابرى صرف دين ميں ہے اس كے علاوہ نہيں جيسا كہ امام مالك كا مسلك ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نكاح ميں كفاءۃ يعنى برابرى اور كفو كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے بارہ ميں فصل ”
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو ہم نے تم سب كو ايك ہى مرد و عورت سے پيدا كيا ہے اور اس ليے كہ تم آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديے ہيں، اللہ كے نزديك تم سب ميں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ ڈرنے والا ہے يقين مانو كہ اللہ دانا اور باخبر ہے الحجرات ( 13 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
سب مومن آپس ميں بھائى بھائى ہيں الحجرات ( 10 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور مومن مرد اور مومن عورتيں ايك دوسرے كے دوست و معاون ہيں التوبۃ ( 71 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كسى عربى كو عجمى ( غير عربى ) پر كوئى فضيلت نہيں، اور نہ ہى كسى عجمى كو عربى پر كوئى فضيلت حاصل ہے، اور نہ كسى سفيد رنگ والے كو كسى سياہ رنگ والے پر اور نہ كسى سياہ رنگ والے كو سفيد رنگ والے پر كوئى فضيلت حاصل ہے، مگر تقوى اور پرہيزگارى كے ساتھ، سب لوگ آدم كى اولاد ہيں اور آدم مٹى سے پيدا ہوئے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3270 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.
اور ترمذى ميں ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
” جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كا دين اور ا سكا اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت بڑا فساد ہو گا.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور اگر اس ميں كچھ ہو ؟
تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو اس كا نكاح كردو، يہ تين بار فرمايا”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1058 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور بنو بياضہ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
” ابو ھند كا نكاح كر دو، اور اس كے خاندان ميں نكاح كرو ”
اور يہ شخص حجام تھا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا جو ايك قريشى خاتون تھيں كا نكاح غلام زيد بن حارثہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ كيا تھا، اور فاطمہ بنت قيس فہريہ رضى اللہ تعالى عنہا جو قريشى خاتون تھيں كا نكاح اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہا سے كيا، اور بلال بن رباح رضى اللہ تعالى عنہ كا نكاح عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كى بہن سے ہوا تھا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور پاكيزہ عورتيں پاكيزہ مردوں كے ليے ہيں، اور پاكيزہ مرد پاكيزہ عورتوں كے ليے ہيں النور ( 26 ).
اور ايك دوسرے مقام پر فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:
تم ان عورتوں سے نكاح كر لو جو تمہيں اچھى لگتى ہيں النساء ( 3 ).
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم تو يہى تقاضا كرتا ہے كہ اصل ميں مكمل طور پر كفو ميں دين كا ہى اعتبار كرنا چاہيے، لہذا نہ تو كوئى مسلمان شخص كسى كافرہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى كوئى عفت و عصمت كى مالك عورت كسى فاجر مرد سے شادى كرے، كفو ميں قرآن و سنت نے اس كے علاوہ كوئى اور معاملہ معتبر شمار نہيں كيا.
كيونكہ مسلمان عورت كے ليے كسى زانى اور خبيث شخص سے نكاح كرنا حرام ہے، اور نہ ہى اس نے كسى نسب اور فن و مہارت كا اعتبار كيا ہے، اور نہ غنى و مالدار اور آزادى كا، اس ليے غلام كے ليے نسب والى اور مالدار آزاد عورت سے نكاح كرنا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وہ خود عفت و عصمت والا اور مسلمان ہو.
اور غير قريشى كا قريشى عورت سے نكاح بھى جائز ہے اور اسى طرح ہاشمى خاندان كى عورت سے كسى غير ہاشمى مرد كا نكاح بھى جائز ہے، اور اسى طرح فقراء قسم كے اشخاص كا غنى و مالدار عورتوں سے نكاح بھى جائز ہے “.
كفو و برابرى كے اوصاف ميں فقھاء كرام كا تنازع پايا جاتا ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا ظاہر مسلك تو يہى ہے كہ يہ دين ہے اور ايك روايت ميں تين اشياء ميں كفو ہونا چاہيے يعنى دين اور آزادى اور عيوب سے سلامت ہونا ” انتہى مختصرا
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 144 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 7 / 27 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 271 ).
دوم:
معاشرتى درجہ سے مراد نسب نامہ يا مالدارى يا تعليم يا فن يا ملازمت يا پھر يہ سب اشياء مراد لى جاتى ہيں.
جس شخص كا دين اور اخلاق پسند ہو وہ عورت كے ليے كفو شمار ہوتا ہے چاہے اس كا معاشرتى درجہ كيسا بھى ہو، راجح يہى ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے، اور اصل اور شرعى حكم بھى يہى ہے.
ليكن جس شخص كا رشتہ آئے اس كے حال كو ديكھنا اور غور كرنا باقى ہے، اور آيا جو اس سے درجہ ميں اونچا ہے اس سے شادى كرنا مناسب ہے يا نہيں ؟
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ اگر ان ميں بہت زيادہ فرق پايا جاتا ہو جو ہم ذكر كر چكے كہ نسب اور مالدارى اور تعليم اور ملازمت وغيرہ ميں بہت زيادہ فرق ہو تو ہم يہى نصيحت كرتے ہيں كہ اس سے شادى نہ كى جائے؛ كيونكہ غالبا عورت يا اس كے خاندان والوں كى جانب سے اسے مشكلات پيدا ہونگى، اور ہو سكتا ہى زندگى بسر كرنے كے اسلوب ميں بھى اختلاف پيدا ہو جائے، اور امور و معاملات سے نپٹنے ميں اختلاف پيدا ہونا خاوند اور بيوى كے مابين نفرت پيدا ہونے كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.
ليكن اگر معمولى سا فرق ہو، يا پھر ايك جانب ميں نقص ہو اور كسى دوسرے اعتبار سے اس كو پورا كيا جا سكتا ہو تو اس صورت ميں شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا آدمى مالدار نہ ہو بلكہ فقير ہو ليكن اس كے پاس اعلى ڈگرياں موجود ہو يا پھر وہ كسى اہم عہدہ اور ملازمت كرنے كى اہليت ركھتا ہو، يا پھر كسى اعلى خاندان سے تعلق ركھتا ہو، وغيرہ .
اور كچھ ايسے حالات ہوتے ہيں جس ميں عورت اور اس كے خاندان والے استقامت و اصلاح پسند ہوتے ہيں جس سے وہ مادى اور مالى امور ميں صرف نظر كرتے ہيں اور لوگوں كو اس نظر سے نہيں ديكھتے، اور ان كى رغبت اور خواہش ہوتى ہے كہ كسى علم ركھنے والے نيك و صالح شخص وغيرہ سے لڑكى كى شادى كى جائے چاہے وہ مالدار نہ بھى ہو، اگرچہ ـ خاوند كے حق ميں ـ بہتر يہى ہے كہ وہ ان اشياء ميں كفو ہو جو اشياء معتبر ہوتى ہيں.
بہر حال اس مسئلہ ميں نصيحت بڑى باريك بينى كے بعد اور فريقين يعنى لڑكے اور لڑكى دونوں كى معلومات ہونے كے بعد ہى كى جا سكتى ہے، اور ان كے خاندان كے متعلق بھى مكمل معلومات ہوں تو ہى بہتر مشورہ ديا جا سكتا ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے كہ آپ اپنے معاشرے اور محلہ ميں رہنے والے ثقہ اور معتبر اشخاص سے مشورہ كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح اختيار كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب