ميں معلمہ ہوں اور چھٹيوں سے واپسى كے ايام ميں ہمارے پاس كوئى كام نہيں ہوتا، تو ان ايام ميں ہم ڈيوٹى سے تقريبا تين گھنٹے قبل جانا چاہتى ہيں، يہ علم ميں رہے كہ محكمہ نے ہميں اس كى اجازت بھى دے ركھى ہے، اس كا حكم كيا ہے ؟
طلبا نہ ہونے كى بنا پر مدرسين كا ڈيوٹى وقت ختم ہونے سے قبل چلے جانے كا حكم
سوال: 85055
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر كوئى كام نہ ہو اور محكمہ نے معلمات كو جانے كى اجازت بھى دے ركھى ہو تو وقت سے قبل جانے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ محكمہ كو كام كى مصلحت كا زيادہ علم اور اس كى زيادہ نظر ہوتى ہے، اور ملازمين پر كاموں كى تقسيم كا علم ہوتا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص ملازم ہے اور اس كے پاس جو كام ہوتا ہے وہ ختم كرنے كے بعد ڈيوٹى ختم ہونے سے قبل اس كے ليےگھر جانے كا حكم كيا ہے، خاص كر رمضان المبارك ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جائز نہيں، اس كے ليے ڈيوٹى ختم ہونے تك دفتر ميں رہنا واجب اور ضرورى ہے، مگر وہ اس محكمہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جہاں كام كرتا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے كوئى نيا كام آ جائے، اور اس كى ضرورت پڑ جائے، اس ليے ملازم پر واجب ہے كہ وہ ڈيوٹى كا وقت ختم ہونے تك دفتر ميں موجود رہے، ليكن حكومت يا پھر اس ادارہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جو اس كا ذمہ دار ہے " انتہى
ماخوذ از: نور على الدرب.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب