ہمارا پاس ايك مالي ادارہ ہے جس ميں شريك ہر فرد بنيادي فيس ( 500ريال ) اورماہانہ سوريال جمع كرواتا ہے، اور كچھ مدت بعدمال بڑھا اور نگرانوں ميں يہ ادارہ اچھي مثال بن گيا اورنقدوں ميں گاڑياں خريد كرماہانہ قسطوں ميں زيادہ قيمت لے كرفروخت كرني شروع كرديں، اس ادارے كےبعض شراكت دار اور دوسرے بھي يہ گاڑياں خريدتےہيں.
پہلا سوال: مندرجہ بالا طريقہ پر گاڑي خريدنےوالے كا حكم كيا ہے حالانكہ وہ ادارےميں شراكت بھي ركھتا ہے؟
دوسرا سوال: ايسے شخص كا كيا حكم ہے جس نےاسي طريقہ سےگاڑي خريدي اور وہ ادارے كا شراكت دار بھي ہے ليكن ادارے كےعلم كےبغير ؟
0 / 0
4,45604/02/2005
شراكت دار كا مال بنك سے قسطوں ميں خريداري كرنا
سوال: 8507
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب يہ شركاء كےمابين اس شرط پر مبني ہو كہ ان ميں كوئي ايك كمپني كي گاڑي خريد سكتا ہے، تويہ جائز نہيں اس ليے كہ يہ ( ايك بيع ميں دو بيع جس سےمنع كيا گيا ہے ) ميں داخل ہوتي ہے، اس ليے كہ وہ شراكت اور بيع ہے ، ليكن اگر يہ پہلےسے مشروط نہ ہو تو اس ميں كوئي حرج نہيں .
اللہ تعالي ہي توفيق بخشنےوالا ہے، اللہ تعالي ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 309 )