ميں صبح اپنے گھر كسى كام كے ليے نكلا اور ظہر كے قريب مجھے ياد آيا كہ نماز فجر كے بعد مجھے تو احتلام ہوا تھا ليكن ميں نے غسل نہيں كيا اور ابھى تك جنبى ہوں، ميرے ليے غسل كرنا مشكل تھا اس ليے ميں حدث اكبر سے طہارت كے ليے تيمم كيا اور نماز كے ليے وضوء كر كے نماز ادا كر لى كيا ميرا يہ عمل صحيح تھا ؟
حالت جنابت ياد آئى ليكن اس كے ليے غسل كرنا مشكل تھا لہذا تيمم كركے وضوء كر ليا
سوال: 85219
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس شخص كو بھى احتلام ہو اور منى خارج ہو جائے اس پر غسل جنابت فرض ہو جاتا ہے، اس كے ليے غسل كى بجائے تيمم كرنا جائز نہيں، ليكن اگر پانى نہ ملے يا پانى كے استعمال ميں ضرر كا خدشہ ہو تو تيمم كيا جا سكتا ہے؛ كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! تم نشہ كى حالت ميں نماز كے قريب مت جاؤ، حتى كہ تم جو كچھ كہہ رہے اسے سمجھنے لگو، اور نہ ہى حالت جنابت ميں مگر راہ عبور كرنے والے، حتى كہ تم غسل كر لو، اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى ايك قضائے حاجت كر كے آئے يا تم نے بيوى سے جماع كيا ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كر لو، اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرو، يقينا اللہ تعالى معاف كرنے والا بخشنے والا ہے النساء ( 43 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” مٹى مسلمان كے ليے وضوء ہے، اگرچہ اسے دس برس تك بھى پانى نہ ملے، اور جب اسے پانى ملے تو وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اسے اپنى جلد سے لگائے، كيونكہ يہ اس كے ليے بہتر ہے ”
اسے بزار نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3861 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے آپ پر ضرورى تھا كہ آپ مسجد ميں ہى غسل كر ليتے، يا پھر كچھ دير كے ليے نماز ميں تاخير كر ليتے حتى كہ گھر واپس آ كر غسل كر كے نماز ادا كرتے، يہ تو اس وقت تھا جب آپ نماز وقت نكلنے سے قبل ادا كر سكتے تھے.
ليكن غسل كرنے سے شرماتے ہوئے تيمم كرنا، يا پھر نماز باجماعت نكل جانے كے خوف سے تيمم كرنا صحيح نہيں، كيونكہ تيمم تو اس وقت صحيح ہے جب پانى نہ ملے، يا پھر انسان پانى كے استعمال سے ضرر كا خدشہ محسوس كرے.
اس بنا پر آپ كو وہ نمازيں دوبارہ ادا كرنا ہونگى جو آپ نے اس تيمم كے ساتھ غسل كرنے سے قبل ادا كى ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب