كيا زنا كرنے والى عورت سے شادى كرنا جائز ہے ؟
زانى مرد اور زانيہ عورت كا توبہ كيے بغير نكاح صحيح نہيں
سوال: 85335
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
زانيہ عورت يا زانى مرد كا نكاح اس وقت تك صحيح نہيں جب تك وہ توبہ نہ كر لے، اور اگر عورت يا مرد توبہ نہيں كرتا تو اس كا نكاح صحيح نہيں ہوگا.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
" زانى مرد سوائے زانيہ عورت كے يا مشركہ عورت كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانيہ عورت زانى مرد يا مشرك كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے "النور ( 3 ).
اس آيت كا سبب نزول اس حكم كو اور بھى زيادہ واضح كر ديتا ہے سنن ابو داود ميں عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
مرثد بن ابو مرثد غنوى رضى اللہ تعالى عنہ مكہ سے قيديوں كو اٹھا كر لايا كرتے تھے، اور مكہ ميں ايك بدكار اور زانيہ عورت تھى جس كا نام عناق تھا، وہ ان كى دوست تھى.
وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں عناق سے شادى كر لوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاموشى اختيار كى چنانچہ يہ آيت نازل ہوئى:
" اور زانى عورت سوائے زانى يا مشرك مرد كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتى "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے بلا كر ميرے سامنے يہ آيت تلاوت فرمائى اور كہنے لگے: تم اس سے نكاح مت كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2051 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
سنن ابو داود كى شرح " عون المعبود " ميں لكھا ہے:
" اس ميں دليل ہے كہ كسى بھى شخص كے ليے ايسى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں جس سے زنا كا اظہار ہو چكا ہو، اور اس كى دليل مندرجہ بالا حديث ميں اس آيت كا ذكر ہے جس آيت كے آخر ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ:
" اور يہ مومنوں پر حرام كر ديا گيا ہے "
تو يہ حرمت ميں صريح ہے " انتہى
سعدى رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يہ زنا كى گندگى كا بيان ہے كہ زنا زانى شخص كو بھى ذليل كر كے ركھ ديتا ہے، اور جو شخص زنا كرے اس كى عزت كو خاك ميں ملا ديتا ہے، اور يہ ايك ايسى سزا ہے جو كسى اور گناہ كى نہيں، بتايا يہ گيا ہے كہ زانى مرد صرف زانى عورت سے ہى نكاح كرتا ہے جو اس كى حالت كے مناسب ہوتى ہے، يا پھر مشركہ عورت سے جو نہ تو قيامت پر ايمان ركھتى ہے اور نہ ہے سزا اور بدلہ پر اور نہ ہى اللہ كے امور كى پاسدارى كرتے ہوئے اللہ كے احكام پر عمل كرتى ہے.
اور زانيہ عورت بھى اسى طرح زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى:
" اور مومنوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے "
يعنى مومنوں پر حرام ہے كہ وہ زانى مرد يا پھر زانى عورت سے نكاح كريں.
اور آيت كا معنى ہے كہ:
جو مرد يا عورت بھى زناكارى كرتا ہو اور اس سے توبہ نہ كرے اور نكاح حرام ہونے كے باوجود نكاح كر لے تو پھر يا تو وہ اللہ اور اس كے رسول كے احكام كا پابند نہيں ہے تو يہ مشرك كے علاوہ كوئى اور نہيں كر سكتا، يا پھر وہ اللہ اور اس كے احكام كى پابندى كرتا ہے اور اس كے زانى كا علم ہونے كے باوجود وہ اس سے نكاح كر رہا ہے تو يہ نكاح زنا ہے، اور زانى سے نكاح كرنے والا بدكار ہے، كيونكہ اگر وہ حقيقى مومن تو ايسا نہ كرتا.
اور زانى عورت سے نكاح حرام ہونے كى يہ واضح دليل ہے جب تك وہ توبہ نہيں كرتى اس سے نكاح حرام ہے، اور اسى طرح زانى مرد سے بھى جب تك وہ توبہ نہ كرے نكاح كرنا حرام ہے كيونكہ خاوند كا اس كى بيوى اور بيوى كا اس كے خاوند سے مقارنہ اور ملاپ تو سب سے شديد ملاپ ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ان لوگوں كو اكٹھا كرو جنہوں نے ظلم كيا اور ان كے دوستوں كو بھى يعنى ان كے قرينوں كو، چنانچہ اللہ عزوجل نے اسے اس ليے حرام كيا ہے كہ اس ميں بہت عظيم قسم كا شر پايا جاتا ہے اور پھر اس ميں قلت غيرت بھى ہے، اور اولاد كى نسبت بھى جو كہ خاوند نہ تھے، اور پھر زانى تو اپنى بيوى كى عفت و عصمت كا خيال نہيں كريگا كيونكہ وہ تو خود كسى دوسرے سے تعلق ركھتا ہے " انتہى
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اس آيت كى تفسير ميں ايسے ہى كہا ہے:
" جو شخص زانيہ عورت سے نكاح كى حرمت كا اعتقاد ركھنے كے باوجود زانيہ سے نكاح كرے تو اس نے حرام عقد نكاح كيا كيونكہ وہ اس كے حرام ہونے كا اعتقاد ركھتا تھا، اور حرام عقد نكاح بالكل ايسے ہى ہے جيسے ہوا ہى نہيں، اس ليے اس كو بيوى سے مباشرت كرنا اور ميل ملاپ وغيرہ كرنا حلال نہيں تو اس حالت ميں يہ شخص زانى ہو گا.
ليكن اگر وہ زانى عورت سے نكاح كرنے كى حرمت كا انكار كرتا ہو اور اسے حلال كہے تو يہ شخص اس حالت ميں مشرك ہو گا، كيونكہ اس نے اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ چيز كو حلال كيا ہے، اور اس نے اپنے آپ كو اللہ كے ساتھ شرع بنانے والا قرار ديا ہے، اور جو شخص اپنى بيٹى كا نكاح كسى زانى مرد سے كرتا ہے اس كے بارہ ميں بھى ہم يہى كہتے ہيں.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 2 / 698 ).
اور شيخ محمد بن ابراہيم اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كى سرابراہى ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى بھى يہى ہے ( يعنى زانى عورت سے نكاح كى حرمت كا ).
ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 10 / 135 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 383 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب اللہ سبحانہ و تعالى نے زانيوں كى سزا كا حكم ديا تو مومون پر ان سے نكاح كرنا حرام كر ديا، تا كہ ان سے بائيكاٹ ہو اور اس وجہ سے كہ ان ميں جو گناہ اور برائياں پائى جاتى ہيں… تو اللہ سبحانہ وتعالى نے بتايا كہ ايسا تو صرف وہى كرتا ہے جو خود زانى ہو يا پھر مشرك.
كيونكہ مشرك ميں تو ايمان ہى نہيں جو اسے فحاشى اور بدكارى سے اور بدكار سے مجامعت ميں مانع ہو.
اور زانى شخص كا فسق و فجور اسے اس بدكارى كى دعوت ديتا ہے چاہے وہ مشرك نہيں بھى ہے….
اور اللہ عزوجل نے حكم ديا ہے كہ برائى اور برے لوگوں سے كنارہ كشى اختيار كى جائے جب تك وہ اپنى اس بدكارى پر قائم ہيں اور يہى چيز زنا ميں بھى پائى جاتى ہے..
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے مردوں ميں يہ لگائى ہے كہ وہ عفت و عصمت والے ہوں خفيہ دوستياں اور بدكارى كرنے والے نہ ہوں چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
" اور ان ( عورتوں ) كے علاوہ دوسرى عورتيں تمہارے ليے حلال كى ہيں يہ كہ تم انہيں مہر دو اور عفت و عصمت اختيار كرنے والے ہو نہ كہ بدكارى كرنے والے "
اور يہ ايسا معنى ہے جس سے غافل نہيں رہنا چاہيے؛ كيونكہ قرآن مجيد بالنص اسے بيان كيا اور فرض كيا ہے.
رہا مسئلہ زانيہ عورت كے نكاح كا تو حنبلى فقھاء اور دوسروں ميں اس ميں بات كى اور اس ميں سلف كے آثار بھى ملتے ہيں چاہے فقھاء كا اس ميں تنازع اور اختلاف ہے ليكن اس كے باوجود جو اسے مباح قرار ديتا ہے اس كے پاس كوئى ايسى دليل نہيں جس پر اعتماد كيا جا سكے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 15 / 316 ).
اور ايك جگہ بيان كيا كہ:
" زانيہ عورت كا نكاح اس وقت تك حرام ہے جب تك وہ توبہ نہ كر لے، چاہے اس سے ہو جس نے اس سے زنا كيا يا كسى اور سے، بلاشك و شبہ يہى صحيح ہے، اور سلف اور خلف ميں سے ايك گروہ كا مسلك بھى يہى ہے جن ميں امام احمد رحمہ اللہ وغيرہ شامل ہيں…
اور كتاب و سنت اور متعبر دلائل بھى اسى پر دلالت كرتے ہيں، اور اس ميں سب سے مشہور سورۃ النور كى يہ آيت ہے جس ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" زانى مرد زانيہ يا مشركہ عورت كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانى عورت زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور يہ مومنوں پر حرام كر ديا گيا ہے "
اور سنت نبويہ ميں اس كى دليل ابو مرثد غنوى رضى اللہ تعالى عنہ كى عنقا كے متعلق حديث ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 110 ).
اور جو شخص اس ميں مبتلا ہو جائے اور توبہ كرنے اور اپنے اس جرم پر نادم ہونے اور آئندہ اس جرم كى طرف كبھى واپس نہ پلٹنے كا عزم كيے بغير نكاح كر لے تو اسے توبہ كرنے كے بعد يہ نكاح دوبارہ كرنا ہو گا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب