ميں اپنے خاوند كے ساتھ جماع كا لطف محسوس نہيں كرتى، ميں نے انٹرنيٹ پر تلاش كيا تو يہ پايا كہ ميرى حالت ايسى ہے جسے جماع اور ہم بسترى پر تيار كرنے اور لطف اندوز ہونے كے ليے تيس سے پنتاليس منٹ دركار ہيں، ليكن ميرا خاوند نہيں جانتا، اسے يہى ہے كہ ميں تيار ہو جاتى ہوں.
ميرے دو سوال ہيں:
ميں خاوند كو يہ باور كراتى ہوں كہ ميں جماع كے ليے تيار ہو چكى ہوں تا كہ اسے پريشان نہ كروں، اور اس كے لطف كو ضائع نہ كردوں، تو كيا يہ جھوٹ شمار ہوگا يا نہيں ؟
اور اگر وہ مجھ سے دريافت كرتا ہے كہ مزہ اور لطف آيا تو ميں اثبات ميں جواب ديتى ہوں، حالانكہ اس جواب ميں ميرى نيت ميں يہ ہوتا ہے كہ ميں اسے ديكھ كر لطف اندوز ہوں.
اہم سوال يہ ہے كہ: ميرا خاوند جماع كے وقت ميرى شہوت كو ابھارتا ہے ليكن ميرا انزال نہيں ہوتا، اس ليے مجھے اس كے فورا بعد ہاتھ سے انزال كرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، تو كيا ايسا كرنا حرام ہے يا نہيں ؟
مجھے علم ہے كہ مشت زنى حرام ہے، ليكن مجھے علم ہے كہ ميرا خاوند ميرا تعاون نہيں كرتا، اس ليے كہ ايسا كرنے كے ليے بہت زيادہ وقت دركار ہے، اور وہ اپنى شہوت پورى كرنا چاہتا ہے، برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
ہم بسترى كى لطف محسوس نہيں كرتى اور خاوند پر بھى اسے مخفى ركھتى ہے
سوال: 87607
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ ظاہر كرتى ہيں كہ حاجت پورى ہوگئى ہے، حالانكہ ايسا نہيں ہوتا، اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ تو اس كى دليل ہے جو اللہ نے آپ كو عقل و حكمت اور دانشمندى جيسى نعمت سے نوازا ہے، اور يہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو ايسا كرنے پر اجروثواب عطا فرمائے، اور اسے آپ دونوں كى سعادت و خوشى كا سبب بنائے.
اس ميں كوئى جھوٹ نہيں كہ آپ اسے باور كراتى ہيں كہ آپ كو لطف آيا اور سعادت حاصل ہوئى ہے، اور دل ميں يہ ہوتا ہے كہ آپ كو صرف اسے ديكھ كر ہى سعادت حاصل ہو جاتى ہے.
دوم:
مشت زنى حرام ہے، اور اس ميں وہ كيفيت بھى شامل ہے جو آپ نے بيان كى ہے، اس ليے آپ پر اسے ترك كرنا واجب ہے، اور جو كچھ ہوچكا ہے اس پر توبہ و استغفار كريں، اور آپ كو يہ ادراك ہونا چاہيے كہ ايسا كرنے سے آپ كا اپنے خاوند سے لطف اندوز ہونے ميں اور بھى كمى پيدا كريگا، اور اس طرح جو آپ كو مشكل درپيش ہے وہ اور بھى زيادہ ہو جائيگى.
سوم:
غالب طور پر اس مشكل كے دو بنيادى سبب ہو سكتے ہيں:
پہلا سبب:
خاوند كو اس مشكل كا ادراك نہ ہونا، يا پھر اس مشكل كا ادراك ہو جانے كے بعد اس كو حل كرنے كا اہتمام نہ كرنا.
آپ كے سوال سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كا خاوند آپ كو لطف انداز كرنے اور لطف پہچانے كى حرص ركھتا ہے، اور اسے يہ ادراك ہے كہ عورت اس سے محروم ہو سكتى ہے اس ليے يہاں اس كا علاج يہ ہے كہ آپ اس كے سامنے اس كى وضاحت ايسے طريقہ سے كريں جس سے اس كے احساسات اور جذبات مجروح نہ ہوں، اور نہ ہى اس كے لطف ميں كوئى نقص اور كمى پيدا ہو.
ہو سكتا ہے وقت بيتنے كے ساتھ ساتھ آپ كے ليے اپنے خاوند كو كسى مناسب طريقہ اور اسلوب سے يہ بتانے كى فرصت پيدا ہو جائے، تا كہ آپ اس حرام كام كے ارتكاب پر مجبور نہ ہوں، اور آپ اللہ كى حلال كردہ نعمت سے لطف اندوز ہونا شروع ہو جائيں.
دوسرا سبب:
يہ خاوند يا بيوى كى طبيعت پر منحصر ہے، يعنى عورت يا مرد كى قوت شہوت كے مطابق، اور اس كا علاج اور دوا طبعى اور نيچرل طريقہ اور دوسرى دوائيوں اور نفسيات كى تيار كے ساتھ ممكن ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ اسباب مہيا كيے جائيں جن سے محبت و مودت ميں اضافہ ہو.
اس ميں سب سے اہم چيز يہ ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں ہى ايك دوسرے كے لطف اور استمتاع كو پورا كرنے كى رغبت ركھيں تو پھر ہو سكتا.
مزيد آپ سوال نمبر (23390 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات