ميں عرب ملك سے تعلق ركھتا ہوں اور امريكہ ميں زير تعليم ہوں، شادى شدہ ہوں اور عارضى طور پر ايك مقامى اخبار تقسيم كرنے كے آفس ميں ملازم ہوں، حتى كہ تعليم مكمل كر كے اپنے ملك واپس چلا جاؤں جہاں ميرے خاندان والوں كو مال كى سخت ضرورت ہے، اس ملك ميں حلال كام كى فرصت نہ ہونے كے پيش نظر كيا يہ اخبار تقسيم كرنے كى ملازمت جائز ہے ؟
امريكہ ميں قرآن مجيد تقسيم كرنے كا حكم
سوال: 87788
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اصل ميں دلائل تو اس پر دلالت كرتے ہيں كہ حرام كام ميں معاونت كرنى جائز نہيں، چاہے وہ خريد و فروخت كے ذريعہ ہو يا اسے اٹھا كر يا اس كى ترويج كر كے، يعنى كسى بھى صورت ميں جائز نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور معصيت و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اور اس ليے بھى كہ دلائل سے ثابت ہے كہ برائى كو روكنا واجب ہے، اور برائى كو ديكھ كر خاموش رہنے اور اس برائى كا اقرار كرنے والے شخص كى مذمت بھى كى گئى ہے، تو پھر برائى كے كام پر تعاون كرنے والے شخص كے متعلق كي سزا كيا ہے ؟!
اس ليے اہل علم كى ايك جماعت نے تو صراحت كى ہے كہ ہر وہ چيز جس سے معصيت و گناہ ميں تعاون ليا جا سكے اسے فروخت كرنا حرام ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس كا اجمال يہ ہے: جس شخص كے متعلق اعتقاد ہو كہ وہ اس جوس سے حرام كردہ شراب كشيد كرےگا تو اسے وہ جوس فروخت كرنا حرام ہے ”
پھر ابن قدامہ كہتے ہيں:
” اور ہر وہ چيز جس سے حرام كا مقصد ہو اس كا حكم بھى يہى ہے مثلا اہل حرب كفار كے ليے اسلحہ فروخت كرنا، يا ڈاكؤوں كو اسلحہ بيچنا يا فتنہ و فساد كے وقت، اور گانے بجانے كے ليے لونڈى فروخت كرنا، يا اسى طرح اسے كرايہ پر دينا، يا شراب فروخت كرنے كے ليے مكان يا دوكان كرايہ پر دينا، يا كنيسہ اور چرچ بنانے كے ليے گھر فروخت كرنا يا كرايہ پر دينا، يا اسے آگ كا گھر بنانے كے ليے، اور اس طرح كے دوسرےحرام كاموں كے ليے، تو يہ حرام ہے، اور معاہدہ باطل ہوگا ” انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 154 ).
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” جمہور علماء كا مسلك ہے كہ ہر وہ چيز جس سے حرام كام كا ارادہ كيا جائے، اور ہر وہ تصرف جو معصيت و نافرمانى كى طرف لے جائے وہ حرام ہے، تو اس طرح ہر وہ چيز فروخت كرنى حرام ہو گى جس كے متعلق علم ہو جائے كہ خريدار كا مقصد اس كو ناجائز كام ميں استعمال كرنا ہے ” انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 9 / 213 ).
دوم:
يہ كوئى مخفى نہيں كہ ان ممالك ميں اخبارات اور جرائد مباح اشياء پر مشتمل ہوتے ہيں مثلا خبريں، يا مقالہ جات اور كالم، يا علمى موضوعات، ليكن اس كے ساتھ ساتھ بہت سارى حرام اشياء مثلا ننگى اور فحش تصاوير، اور فسق وفجور اور فحاشى كے اڈوں اور قمار بازى اور شراب نوشى كے اڈوں كى مشہورى اور اعلانات وغيرہ بھى پائى جاتى ہيں، اور يہ حرام اشياء بہت زيادہ ہيں، اور ان اخبارات كو خريدنے والے اكثر لوگوں كا مقصد بھى يہى حرام اشياء ہوتى ہيں، تو اس ليے جو ايسے ہو اسے نشر اور عام كرنے اور تقسيم كرنے ميں معاونت كرنا جائز نہيں.
ہمارے عزيز بھائى آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو شخص بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ليے چھوڑتا ہے تو اللہ تعالى اسےاس كے بدلے ميں اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے، اس ليے آپ حلال روزى تلاش كريں ان شاء اللہ آپ كو مل جائيگى.
آپ سوال نمبر (89737 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو وہ كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جس سے اللہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند كرتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب