ميرا ايك بھائى يورپى ممالك ميں رہتا ہے اس كى عمر پنتاليس برس اور وہ ايك غير ملكى لڑكى سے شادى شدہ ہے اس كے دو بچے بھى ہيں، مشكل يہ ہے كہ ميرى والدہ كے سفر كے كاغذات اور رہائش پرمٹ بنانے سے انكار كر رہا ہے، كيونكہ جب والدہ اس كےپاس ايك ماہ گزارنے جاتى ہے تو وہ نو ماہ تك رہتى ہے، اور اپنى اولاد اور خاوند سے دور رہتى ہے، جب اس نے والدہ كو اپنے گھر اور خاوند كے پاس جانے كا كہتا ہے تو وہ اسے بيوى اور بچوں كے سامنے ہى گالياں دينے لگ جاتى ہے، اور جب وہ اپنے ملك واپس آ گئى تو اب دوبارہ اس كا ويزہ نكلوانے سے انكار كر رہا ہے كہ وہاں آ كر والدہ مشكلات سے دوچار كرتى ہے، خاص كر والدہ بہت تعصب مزاج والى ہے اور چھوٹے سے سبب كى باعث بھڑك اٹھتى ہے جس كى بنا پر وہ نشہ آور اشياء استعمال كرنا شروع كر ديتا ہے، اس كا سوال ہے كہ آيا والدہ كو اپنے پاس نہ آنے دينا كہيں گناہ و قطع تعلقى تو نہيں ؟
بيوى اور خاندان پر حرص ركھتے ہوئے والدہ كو اپنے پاس نہ آنے سے روك دينا
سوال: 87815
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں والدين كے ساتھ نيكى و حسن سلوك كرنے كا حكم ديا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى والدين كى خدمت بجا لانے اور انہيں خوش ركھنے اور ان كى سعادت و خوشبختى كا باعث بننے پر ابھارا ہے، اور اس ميں ہر قسم كا مباح اور موجود وسيلہ استعمال كرنا چاہيے، اور ہر فرصت و موقع كو غنيمت جانتے ہوئے ان كے ساتھ حسن سلوك كرنا چاہيے.
والدين كے ساتھ حسن سلوك ميں سب سے افضل و بہتر يہ ہے كہ والدين كى ازداجى زندگى كى كاميابى كى حرص ركھى جائے اور ان دونوں كے مابين محبت و مودت اور حسن معاشرت كى كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ سمجھدار اور نيك بيٹے والدين كے مابين وہ محبت و مودت قريب كر سكتے ہيں جو كوئى اور نہيں كر سكتا، اور وہ ہر اس سبب اور وجہ سے درگزر كا سبب بن سكتے ہيں جو خاندانى زندگى كے خراب ہونے كا باعث ہو.
ميرے خيال ميں تو آپ كا بھائى چاہتا ہے كہ والدہ اپنى اولاد اور خاوند كے ساتھ رہے اور يہ بيٹے كے حكيم ہونے كى دليل ہے خاص كر جب والدہ كے زيادہ مدت غائب رہنے سے بچوں اور خاندان پر برا اثر پڑتا ہے، اور اكثر يہى ہوتا ہے.
ليكن اسے چاہيے كہ وہ اس تعارض كو اچھے اسلوب سے ختم كرے اور اس ميں كوئى اچھا طريقہ اختيار كرے كہ والدہ كا اپنے بچوں اور خاوند كے ساتھ رہنا اور والدہ كى اس كے ہاں آنے كى رغبت ميں جو تعارض ہے وہ بھى ختم ہو جائے.
ان شاء اللہ اس مشكل كو حل كرنے كے ليے كوئى حل اور سوچ ضرور مل سكتى ہے، اگر تو والدہ كے ويزہ كے ايك ماہ كى تحديد كرنا ممكن ہو تو يہ بہتر ہے، اور جب مہينہ ختم ہو جائے تو والدہ سے معذرت كرتے ہوئے كہے كہ اب ويزہ ختم ہو گيا ہے آپ واپس چلى جائيں.
اور اس سے بھى اچھا اور بہتر يہ ہے كہ اگر اس كے اپنے پورے خاندان يعنى بہن بھائيوں اور والدين سب كے ليے ويزہ نكلوا سكے تو بہتر ہے تا كہ والدہ ان كے ساتھ ہى ہو.
اور اگر وہ والدہ كو اچھے طريقہ سے نصيحت كر سكتا ہو اور صراحت سے كہے كہ خاوند كى اطاعت اور اس كى خدمت كرنا واجب ہے، خاص كر جب خاوند ہر وقت اس كے جانے پر موافق نہ ہو تو وہ اس كو سمجھانے كى كوشش كرے، اور اس ميں اسے كوئى شرم اور اكتاہٹ محسوس نہيں كرنى چاہيے.
اور اگر اس ميں والدہ اس نافرمان بھى كہے، يا پھر كہے كہ وہ اپنے پاس آنا پسند نہيں كرتا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى تو اس كے دل كے حال كو جانتا اور اس كى نيت كى پہچانتا، اور حقيقت حال سے باخبر ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو كچھ تمہارے دلوں ميں ہے اسے تمہارا رب بخوبى جانتا ہے اگر تم نيك ہو تو وہ تو رجوع كرنے والوں كو بخشنے والا ہے بنى اسرائيل ( 25 ).
امام ابن جرير طبرى رحمہ اللہ اس آيت ميں تفسير ميں كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ربكم
اے لوگوں تمہارا رب تم سے زيادہ جانتا ہے.
اعلم تم سے زيادہ جانتا ہے.
بما فى قلوبكم
جو تمہارے دلوں ميں اپنے والدين كى تعظيم ہے اور ان كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى عزت ہے، اور اس ميں جو نافرمانى اور ان كے حقوق كى كمى كا اعتقاد وغيرہ جو تمہارے سينوں ميں چھپا ہے اس پر كوئى مخفى نہيں، وہ اللہ سبحانہ و تعالى اس حسن سلوك پر تمہيں بہتر بدلہ دے گا، اور برائى كى سزا، اس ليے تم اپنے سينوں ميں كوئى برى بات مت چھپاؤ اور ان كے ساتھ نافرمانى كا اعتقاد مت ركھو.
اور فرمان بارى تعالى:
ان تكونوا صالحين
اگر تم نيك و صالح ہو: يہاں اللہ تعالى يہ كہہ رہا ہے كہ اگر تم والدين كے متعلق نيت اچھى كر لو اور اللہ نے ان كے ساتھ جو حسن سلوك اور نيكى كرنے كا حكم ديا ہے اس كى اطاعت كرتے ہوئے اسے تسليم كرو اور ان كے حقوق كا خيال ركھو، بعد اس كے كہ تم سے يہ غلطى ہو گئى يا تم پر جو واجب تھا اس ميں قدم پھسل گيا تو جو آپ پر واجب تھا اس كو پورا كرنے كے بعد اگر كوئى غلطى ہو گئى اور تم توبہ كر لو تو اللہ تعالى بخشنے والا ہے.
ديكھيں: تفسير الطبرى ( 17 / 321 – 322 ).
اس آيت كريمہ ميں آپ كے بھائى كے سچى دعوت پائى جاتى ہے كہ وہ اپنے دل اور نيت كو صاف ركھے، تا كہ اس كا اپنى والدہ كے ليے ويزہ اور زيارت سے عذر پيش كرنا والدہ كے گھر اور خاندان كى اصلاح كا باعث ہو اور والدہ اپنے بچوں ميں رہے اور خاوند كى نافرمانى اور بغير اجازت كے بغير سفر كرنے كا جو گناہ اسے ہوتا ہے اس ميں معاون نہ بنے.
ليكن اگر اس كا باعث اور حقيقى سبب والدہ سے كراہت اور اپنے پاس نہ آنے كى رغبت ركھنا اور اپنے ہاں ٹھرنے نہ دينا اور عدم خدمت ہو تو پھر اس حالت ميں وہ گنہگار ہو گا، اور معصيت و نافرمانى كا مرتكب ٹھرے گا اور والدين كى نافرمانى جيسے كبيرہ گناہ كا ارتكاب كرے گا، كيونكہ اولاد پر والدين كا سب سے عظيم حق يہ ہے كہ جب والدين بڑى عمر كے اور بوڑھے ہو جائيں تو ان كى عزت و توقير كى جائے اور ان كى خدمت بجا لائى جائے.
بھائى كو چاہيے كہ اگر وہ والدہ كے ليے مناسب طريقہ سے ويزٹ پر اختيار نہيں ركھتا تو پھر وہ اس كے عوض ميں خود والدہ كى زيارت كے ليے جب ممكن ہو جائے، اور لمبى مدت تك والدہ سے غائب مت رہے، پھر اسے كوشش كرنى چاہيے كہ والدہ كے ساتھ حسن سلوك اور احسان كرے اور والدہ كو تحفےوغيرہ بھيجا كرے.
دوم:
آپ نے جو ذكر كيا ہے كہ بھائى نشہ آور اشياء استعمال كرنے لگتا ہے:
اگر تو آپ كى مراد وہ گولياں ہيں جو پريشانى اور غصہ كى حالت ميں استعمال كى جاتى ہيں: ان ميں اصل يہى ہے كہ يہ گولياں استعمال كرنى جائز نہيں، كيونكہ اس ميں نشہ آور مادہ پايا جاتا ہے جو شريعت نے حرام كيا ہے.
ليكن اگر وہ بقدر ضرورت اور كسى ماہر اور تجربہ كار ڈاكٹر كے نسخہ كے مطابق استعمال كرتا ہے تو اس كے استعمال كرنى جائز ہيں ليكن اسے ڈاكٹر كى نگرانى ميں استعمال كرنى چاہييں كيونكہ يہ ضرورت كى بنا پر ہے اور ضرورت كو ضرورت تك محدود ركھا جائے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
خواب آور گولياں يا جسے سكون آور گولياں كہا جاتا ہے استعمال كرنےكا حكم كيا ہے، آيا يہ نشہ آور اشياء ميں شامل ہوتى ہيں يا نہيں، اور كيا اگر ڈاكٹر اس كى ہدايت كرے تو استعمال كرنى جائز ہونگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
بغير ضرورت ان گوليوں كا استعمال جائز نہيں، اور اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ كوئى ماہر اور تجربہ كار ڈاكٹر اجازت دے؛ كيونكہ يہ خطرناك گولياں ہيں، اور اس كا دماغ پر اثر پڑتا ہے جب كوئى انسان استعمال كرے تو اس وقت اس كے ليے سكون كا باعث بنتى ہيں ليكن اس كے نتيجہ ميں جو نقصان اور ضرر ہوتا ہے وہ اس سے زيادہ ہے، اس ليے اہم يہ ہے كہ صرف ضرورت كے وقت استعمال جائز ہے، اور شرط يہ ہے كہ يہ كسى ماہر ڈاكٹر كى نگرانى ميں استعمال كى جائيں ”
كيسٹ فتاوى نور على الدرب سائڈ ( A ) كيسٹ نمبر ( 82 ).
ليكن اگر يہ گولياں جسم سستى و سكون پيدا كريں تو ان كا حكم نشہ آور اشياء كا حكم ہو گا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جسم ميں سكون پيدا كرنے والى ادويات جو اعصابى علاج كے استعمال كى جاتى ہيں اور جسم فتور پيدا كرنے والى قسم ميں ركھى جاتى ہے استعمال كرنےكا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء كے ساتھ علاج كرنا جائز نہيں، اور فتور پيدا كرنے والى اشياء كا استعمال حرام كيا گيا ہے ”
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25 / 32 ).
ليكن اگر آپ كا مقصد ( اللہ نہ كرے ايسا ہو ) نشہ آور اشياء ہوں جو شہوانى اور نشئى افراد استعمال كرتے ہيں تو يہ عظيم معصيت و نافرمانى ہے، آپ كے ليے بھائى كو نصيحت كرنا ضرورى ہے كہ وہ اس سے چھٹكارا حاصل كرے، اور اس كے متعلق تجربہ كار اور ماہر ڈاكٹر سے رابطہ كرے جو اس كے علاج كى نگرانى كرتے ہيں.
اس مواد كى حرمت اور اس ميں جو نقصانات پائے جاتے ہيں اس كا تفصيلى بيان ہمارى اسى ويب سائٹ كے سوال نمبر (66227 ) اور (32466 ) اور (6540 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اور آپ كے بھائى كى حفاظت فرمائے اور ہدايت نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات