0 / 0

خاوند ميكے نہيں جانے ديتا

سوال: 87834

كيا اگر خاوند چاہے كہ بيوى ميكے والوں كو نہ ملے تو اس سلسلہ ميں خاوند كى اطاعت كرنى جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بيوى كے ليے اپنے خاوند كے گھر سے سے خاوند كى اجازت سے باہر جانا جائز نہيں، چاہے وہ ميكے والوں كو ہى ملنا چاہتى ہو تو بھى خاوند كى اجازت سے ہى جائيگى، اور خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ بيوى كو اپنے ميكے والوں سے ملنے كى اجازت دے تاكہ بيوى ميكے اور خاندان والوں سے صلہ رحمى كر سكے.

ليكن اگر خاوند اسے ميكے جانے اور ان سے ملنے سے روك دے تو بيوى كو اس ميں خاوند كى اطاعت كرنا ہوگى، خاوند كو حق نہيں كہ وہ بيوى كو والدين سے سے ملنے يا ان سے بات چيت كرنے سے بھى منع كرے.

اس مسئلہ ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے، ليكن راجح يہى ہے ہم جو اوپر كى سطور ميں بيان كر چكے ہيں.

چنانچہ احناف اور مالكى حضرات كہتے ہيں كہ:

" خاوند اپنى بيوى كو اس كے والدين سے ملنے سے نہيں روك سكتا "

شافعى اور حنابلہ كہتے ہيں كہ خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے، اور اس ميں بيوى كو اپنے خاوند كى اطاعت كرنا ہو گى، اس ليے وہ خاوند كى اجازت كے بغير والدين كو بھى ملنے نہيں جا سكتى.

ليكن خاوند كو حق حاصل نہيں كہ وہ بيوى كو اس كے والدين سے ملنے يا ان سے بات چيت كرنے سے روكے، صرف اسى صورت ميں روك سكتا ہے جب والدين كو ملنے ميں كسى ضرر و نقصان كا خدشہ ہو تو اس ضرر كو دور كرنے كے ليے روكا جا سكتا ہے.

ابن نجيم حنفى كہتے ہيں:

" اگر عورت كے والدين بوڑھے ہوں مثلا وہ خدمت كے محتاج ہوں اور خاوند بيوى كو ان كى ديكھ بھال كرنے سے روكتا ہو تو بيوى اس ميں اپنے خاوند كى بات نہ مانے، چاہے والدين مسلمان ہوں يا كافر، فتح القدير ميں يہى لكھا ہے.

ہم نے جو بيان كيا ہے اس سے يہى معلوم ہوتا ہے كہ بيوى كو اپنے والدين اور محرم اشخاص سے ملنے كے ليے جانے كا حق ہے، صحيح فتوى يہى ہے كہ عورت ہر جمعہ كو والدين سے ملنے جائے چاہے اجازت ملے يا نہ ملے، اور اقربا و رشتہ داروں كو سال بھر ميں ايك بار ملنے جائے چاہے اجازت دے يا نہ دے " انتہى

ديكھيں: البحر الرائق ( 4 / 212 ).

اور التاج و الاكليل على متن خليل مالكى فقہ كى كتاب ميں درج ہے:

" العتبيۃ ميں ہے: خاوند اپنى بيوى كو اس كے والدين يا بھائى كے گھر جانے سے نہيں روك سكتا، خاوند كے خلاف يہى فيصلہ كيا جائيگا، ليكن ابن حبيب اس كى مخالفت كرتے ہيں.

ابن رشد كہتے ہيں: يہ اختلاف تو اس نوجوان بيوى كے متعلق ہے جس سے امن ہو، ليكن زيادہ عمر كى عورت كے بارہ ميں كوئى اختلاف نہيں، اس كے بارہ ميں يہى فيصلہ كيا جائيگا كہ وہ اپنے والدين اور بھائى كو ملنے جائے، ليكن نوجوان لڑكى جس سے خطرہ ہو اور غير مامونہ ہو اس كے ليے اجازت كے بغير جانا جائز نہيں كا فيصلہ ہوگا " انتہى

ديكھيں: التاج و الاكليل على متن خليل ( 5 / 549 ).

المتجالۃ: اس بوڑھى اور زائد عمر كى عورت كو كہتے ہيں جس كے بارہ ميں مردوں كى چاہت نہ رہے "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 294 ).

شافعى فقھاء ميں سے ابن حجر المكى كہتے ہيں:

" اگر عورت والد سے ملنے ياحمام جانے كے ليے مجبور ہو تو وہ خاوند كى اجازت سے باپرد ہو كر پورى حشمت كے ساتھ باہر جائيگى، اور چلنے ميں بھى اپنى آنكھيں نيچى ركھےگى، دائيں بائيں نظريں نہيں دوڑائےگى، وگرنہ دوسرى صورت ميں وہ نافرمانى كہلائيگى " انتہى

ديكھيں: الزواجر عن اقتراف الكبائر ( 2 / 78 ).

اور شافى كتب " اسنى المطالب " ميں درج ہے:

" خاوند كے ليے بيوى كو والدين كى عيادت اور ان كے جنازہ ميں شريك ہونے سے روكنے كا حق حاصل ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ مت روكے " انتہى

ديكھيں: اسنى المطالب ( 3 / 239 ).

امام احمد رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت كى والدہ بيمار ہے اور خاوند تيمار دارى كے ليے نہيں جانے ديتا تو كيا كرے ؟

امام احمد رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس پر ماں سے زيادہ خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اجازت دے دو تو اور بات ہے " انتہى

ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 47 ).

اور حنابلہ كى كتاب " الانصاف " ميں درج ہے:

" خاوند سے عليحدہ ہونے كے مسئلہ ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت كرنا لازم نہيں، اور اسى طرح خاوند كو چھوڑ كر وہ انہيں بغير اجازت ملنے بھى نہيں جا سكتى، بلكہ خاوند كى اطاعت كا زيادہ حق ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

خاوند كى اجازت كے بغير بيوى كا والدين كو ملنے اور اجازت كے بغير وہاں رات بسر كرنے كا حكم كيا ہے ؟

اور خاوند كى اطاعت پر اپنے والد كى اطاعت كو ترجيح دينا كيسا ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" بيوى كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير والدين يا كسى دوسرے كو ملنے جانا جائز نہيں، كيونكہ اس پر خاوند كا يہ حق ہے، ليكن اگر كوئى شرعى سبب اور جو اسے جانے پر مجبور كرتا ہو تو وہ بغير اجازت جا سكتى ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 165 ).

والدين كو ملنے كے ليے خاوند كى اجازت كى دليل صحيحين ميں واقعہ افك والى حديث ہے، جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي:

" كيا آپ مجھے اپنے والدين كے پاس جانے كى اجازت ديتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4141 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2770 ).

اور عراقى رحمہ اللہ " طرح التثريب " ميں لكھتے ہيں:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا يہ كہنا كہ: " كيا آپ مجھے اپنے والدين كے پاس جانے كى اجازت ديتے ہيں " اس عبارت ميں يہ بيان ہوا ہے كہ بيوى خاوند كى اجازت كے بغير والدين كے پاس نہ جائے، ليكن انسانى حاجت ميں اجازت كى ضرورت نہيں، جيسا كہ اس حديث ميں واد ہے " انتہى

ديكھيں: طرح التثريب ( 8 / 58 ).

ليكن اس كے باوجود خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اس كے والدين اور دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملنے كى اجازت دے، اور اسے انہيں ملنے سے مت روكے، صرف اگر ملنے ميں يقينى نقصان اور ضرر ہوتا ہو تو پھر روكا جا سكتا ہے.

كيونكہ بيوى كو اس كے والدين اور محرم رشتہ داروں سے روكنے ميں قطع تعلقى ہوتى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى باعث وہ اپنے خاوند كى مخالت كرنا شروع كر دے اور خاوند كى بات ہى نہ مانے.

اور اس ليے بھى كہ جب اسے اس كے والدين سے ملنے كى اجازت دى جائيگى اور وہ اپنے دوسرے محرم رشتہ داروں كو ملنے جا سكےگى تو اسے خوشى حاصل ہوگى، اور خيالات اچھے ہونگے، اور اس كى اولاد بھى خوش ہوگى، اور ان سب كا فائدہ خاوند اور خاندان كو ہى ہوگا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android