مجھے پاخانہ كے ساتھ يا پھر ويسے ہى خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس كى بنا پر ميرا انڈر وئير خون آلود ہو جاتا ہے، بارہ گھنٹے سے زيادہ ميرى ڈيوٹى ہوتى ہے، اس ليے كيا ميں ملازمت والى جگہ پر ہى اس خون سميت نماز ادا كرسكتا ہوں يا نہيں ؟
يہ علم ميں ركھيں كہ ملازمت والى جگہ پر ميں لباس تبديل نہيں كر سكتا.
انڈر وئير كو خون لگنا اور بار بار تبديل كرنے كى مشكل
سوال: 87851
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہر نمازى كے ليے نماز ادا كرنے سے قبل اپنا لباس نجاست سے پاك صاف كرنا ضرورى اور واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اپنا لباس پاك صاف كرو المدثر ( 4 ).
اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حيض والے لباس ميں نماز ادا كرنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز سے قبل حيض والا لباس تبديل كرنے كا حكم ديا.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 308 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 361 ).
اس ليے نماز ادا كرنے سے قبل آپ اپنا لباس تبديل كريں، يا پھر انہيں پاك صاف كريں، اس مشقت سے آپ كے ليے اس طرح بھى بچنا ممكن ہے كہ آپ كوئى كپڑا يا پھر ٹشو پيپر وغيرہ ركھ ليں جو خون پھيلنے سے روك دے، پھر آپ وضوء كے وقت اس كپڑے يا ٹشو پيپر كو تبديل كرليں، اور جہاں خون لگا ہے اسے دھو ليں، ليكن اگر آپ كے ليے اس ميں بھى مشقت ہو تو پھر اسى لباس ميں آپ كے ليے نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں. آپ انڈر وير اتار ليں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” مسلسل پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص جو علاج ومعالجہ سے بھى صحت ياب نہ ہو اسے ہر نماز كے ليے نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كر كے نماز ادا كرنا ہوگى، اور بدن ميں جہاں بھى پيشاب لگا ہو اسے دھونا بھى ہوگا، اگر اسے مشقت نہ ہو تو نماز كے ليے وہ پاك صاف كپڑا ركھ كر نماز ادا كرے، وگرنہ اسے ايسا كرنا معاف ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اس نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى اسطرح ہے:
اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ مشكل اور تنگى نہيں كرنا چاہتا.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو تم اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو ”
اور اسے اپنى جانب سے يہ احتياط كرنى چاہيے كہ اس كے لباس يا جسم يا پھر نماز والى جگہ پر پيشاب كے قطرات نہ گريں ” انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 192 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب