0 / 0
10,26721/04/2009

اللہم صلى على محمد عدد كمال اللہ كے الفاظ كہنا

سوال: 88109

ہمارى مسجد ميں نمازيوں كى عادت ہے كہ نماز كے اذكار سبحان اللہ اللہ اكبر اور الحمد للہ كہنے كے بعد وہ مؤذن كى قيادت ميں كئى ايك درود پڑھتے ہيں جو درج ذيل ہيں:

1 ـ اللھم صلى وسلم و بارك على سيدنا محمد و على آلہ عدد كمال اللہ و كما يليق بلكمالہ.

2 ـ اللھم صلى وسلم و بارك على سيدنا و على آلہ عدد اسماء اللہ و كما يليق بكمالہ.

3 ـ معروف درود جو درود ابراہيمى كے نام سے معروف ہے.

نوٹ:

كچھ لوگ كہتے ہيں كہ ” عدد كمال اللہ ” كے الفاظ جائز نہيں، اور دليل ديتے ہيں كہ كمال اللہ اللہ كے ليے محصور ہے، اور ” عدد اسماء اللہ ” كے الفاظ كو جائز قرار ديتے ہيں، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

نماز كے بعد مشروع اذكار ميں تسبيح و تحميد و تكبير شامل ہيں اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

كعب بن عجرۃ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” نماز كے بعد ايسے اذكار ہيں جن كو فرضى نماز كے بعد پڑھنے والا يا عمل كرنے والا كبھى خائب و خاسر نہيں ہو سكتا وہ يہ ہيں: ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ( 33 ) مرتبہ الحمد للہ اور ( 34 ) مرتبہ اللہ اكبر “

صحيح مسلم حديث نمبر ( 596 ).

اور مسلم شريف ہى كى روايت ميں ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى ہر فرضى نماز كے بعد ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ( 33 ) الحمد للہ اور ( 33 ) مرتبہ اللہ اكبر پڑھا تو يہ نناويں ہوئے اور سو پورا كرنے كے ليے ” لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ”

اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ وحدہ لا شريك ہے اسى كى بادشاہى ہے اور اسى كى حمد و تعريف اور وہ ہر چيز پر قادر ہے.

كہے تو اس كے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں چاہے وہ سمندر كى جھاگ كے برابر ہوں ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 597 ).

اور صحيح بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

” فقراء مہاجر افراد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كيا مالدار لوگ تو بلند درجات لے گئے اور ہميشہ كى نعمتوں كے مالك بن گئے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

بھئى وہ كيسے تو انہيں نے عرض كيا: وہ بھى اسى طرح نماز ادا كرتے ہيں جس طرح ہم نماز ادا كرتے ہيں، اور روزہ بھى اسى طرح ركھتے ہيں جس طرح ہم روزہ ركھتے ہيں، اور وہ صدقہ و خيرات بھى كرتے ہيں ليكن ہم صدقہ و خيرات نہيں كرتے، اور وہ غلام بھى آزاد كرتے ہيں ليكن ہم نہيں كرتے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” كيا ميں تمہيں ايسى چيز نہ بتاؤں جس پر عمل كرو تو تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں كے ساتھ مل جاؤ اور تم اپنے بعد والوں سے سبقت لے جاؤ، اور تم سے افضل وہى ہو گا جو تمہارے جيسا عمل كريگا.

تو انہوں نے عرض كيا: كيوں نہيں يا رسول اللہ وسلم آپ ضرور بتائيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم ہر نماز كے بعد ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ( 33 ) الحمد للہ اور ( 33 ) مرتبہ اللہ اكبر كہا كرو ”

ابو صالح كہتے ہيں: تو يہ مہاجر فقراء صحابہ كرام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس دوبارہ آئے اور عرض كرنے لگے ہمارے مالدار بھائيوں نے اس كے متعلق سنا جو ہم عمل كرتے تھے تو وہ بھى اس طرح كا عمل كرنے لگے ہيں چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يہ اللہ كا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرما ديتا ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 595 ).

يہ عظيم اذكار نماز كے بعد انسان انفرادى طور پر پڑھے، ليكن مؤذن يا امام وغيرہ كى قيادت ميں اجتماعى طور پر يہ اذكار پڑھنا بدعات ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ يہ كيفيت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، اور اہل علم نے بھى اس پر تنبيہ كى ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” ميرا اختيار يہ ہے كہ امام اور مقتدى نماز كے بعد اذكار كريں، اور يہ خفيہ طور پر ہو، ليكن امام كو چاہيے كہ وہ اذكار بلند آواز سے پڑھے كيونكہ مقتدى اس سے تعليم حاصل كرينگے پھر وہ خفيہ اور پوشيدہ پڑھے؛ كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

نہ تو آپ اپنى نماز بلند آواز سے پڑھيں اور نہ بالكل پوشيدہ بنى اسرائيل ( 110 ).

يعنى اپنى دعاء بلند اور خفيہ نہ كريں حتى كہ اپنے آپ نہ سنائيں.

ميرے خيال ميں ابن زبير نے جو روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم الا الہ اللہ كہا كرتے تھے، اور ابن عباس نے روايت كيا ہے كہ آپ تكبير كہا كرتے تھے، جيسا كہ ہم نے روايت بھى كيا ہے.

امام شافعى كہتے ہيں:

” ميرے خيال ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تھوڑى بنلد آواز ميں اس ليےكہا تا كہ لوگ اس كو سيكھ ليں، كيونكہ ہم نے اس كے ساتھ جو عام روايات درج كى ہيں ان ميں سلام پھيرنے كے بعد لا الہ اللہ اور اللہ اكبر كا ذكر نہيں ” انتہى

ديكھيں: الام ( 1 / 127 ).

شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

تو پھر بدعت كى تعريف يہ ہوئى كہ دين جو نيا طريقہ اختراع كر ليا جائے اور شريعت كا مقابلہ كرے، اس پر چلنے سے اللہ كى عبادت ميں مبالغہ كرنا مقصود ہو، كہ عبادت زيادہ كى جائے تو يہ بدعت كہلاتا ہے…

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

كيفيت و ہئيت كى تعيين كر نے كا التزام كرنا، مثلا ايك ہى آواز ميں اجتماعى ذكر كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت باسعادت كے دن كو جشن منانا اور اسے عيد ماننا اور اس طرح كے دوسرے امور.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہ ملتى ہو، مثلا پندرہ شعبان كو نصف شعبان كا روزہ ركھنا، اور اس رات قيام كرنا ” انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 – 39 ).

اور شيخ جمال الدين القاسمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” بعض مساجد ميں جب امام عصر كى نماز سے سلام پھيرتا ہے تو مؤذن چيخ كر دعاء اور آمين كا كہتا ہے، اور بعض مساجد ميں جب نماز سے سلام پھيرا جاتا ہے تو مقتدى بلند آواز سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كماليۃ پڑھنا شروع كر ديتے ہيں ايسا كرنا سنت كے مخالف ہے؛ كيونكہ سنت تو يہ ہے كہ فرضى نماز كے بعد ہر نمازى خاموشى سے مسنون اذكار كرے.

اور اسى طرح دعاء كے آداب پست آواز ركھنا شامل ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تم اپنے رب سے گڑگڑا كر كے بھى اور چپكے چپكے دعا كيا كرو .

اور پھر ان لوگوں نے اس آيت سے اعراض كرتے ہوئے نہ تو گڑ گڑا كر دعا كى اور نہ ہى خفيہ طور پر چپكے سے” انتہى

ديكھيں: اصلاح المساجد من البدع و العوائد ( 154 ).

اور شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” مكروہ بدعات ميں يہ بھى ہے كہ نماز ايك مخصوص طريقہ كے ساتھ آواز بلند كر كے ختم كى جاتى ہے، اور اجتماع ہوتا ہے اور اس پر مواظبت و ہميشگى كرتے ہيں، حتى كہ عام لوگ يہ اعتقاد كرنے لگے ہيں كہ يہ نماز كى تكميل ميں ہے، اور ايسا كرنا سنت ہے اس كے بغير چارہ نہيں، اور اس كے ساتھ انفرادى طور پر ايسا كرنا مستحب ہے.

يہ ہئيت بدعت ہے، نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اور نہ ہى صحابہ كرام سے، اور لوگوں نے اسے فرضى نماز كے بعد نماز كا شعار بنا ركھا ہے…..

يہ بلند آواز كے ساتھ كرنا كيسے جائز ہو سكتا ہے حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى تو اپنى كتاب حكيم ميں فرماتا ہے:

تم اپنے رب سے گڑگڑا كر كے بھى اور چپكے چپكے دعا كيا كرو يقينا وہ زيادتى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا .

اس ليے پوشيدہ اور چپكے سے دعا كرنا اخلاص سے زيادہ قريب اور رياء سے دور ہے ” انتہى

ديكھيں: الابداع فى مضار الابتداع ( 283 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

سوال:

سنن مؤكدہ كے بعد اجتماعى شكل ميں دعا كرنے كے بارہ ميں لوگوں ميں اختلاف پايا جاتا ہے، ايك گروہ كہتا ہے كہ يہ عمل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول نہيں اور نہ ہى صحابہ كرام سے، اگر يہ خير ہوتى تو اس ميں وہ ہم سے سبقت لے جاتے كيونكہ وہ ہم سے زيادہ اتباع حق كے حريص تھے.

اور ايك گروہ كہتا ہے كہ سنن مؤكدہ كے بعد اجتماعى دعا مستحب و مندوب بلكہ مسنون ہے، كيونكہ يہ ذكر اور عبادت ہے اور ہر ذكر اور عبادت كم از كم مستحب اور مسنون ہو گا، اور يہ ان افراد كو ملامت كرتے ہيں جو نماز كے بعد دعا كا انتظار نہيں كرتے اور اٹھ كر چلے جاتے ہيں، اس ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب:

” دعاء ايك عبادت ہے، اور عبادات توقيف پر مبنى ہيں يعنى جس طرح مشروع ہے اسى طرح بجا لائى جائيگى اس ميں كوئى كمى و بيشى نہيں ہو سكتى، اس ليے يہ كہنا جائز نہيں كہ: يہ عبادت من حيث الاصل يا عدد يا ہئيت يا جگہ كے اعتبار سے مشروع ہے، ليكن اگر اس كى كوئى شرعى دليل مل جائے تو ٹھيك وگرنہ جائز نہيں.

اس كے متعلق نہ تو ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا كوئى قول اور نہ ہى عمل اور نہ ہى تقرير ملى ہے جو دوسرے گروہ كے دعوى پر دلالت كرتى ہو، اور خير و بھلائى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت پر عمل كرنے ميں ہى پنہاں ہے.

اس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صحيح احاديث سے جو طريقہ ثابت ہے اور آپ كے بعد خلفاء راشدين اور صحابہ كرام بھى اسى پر عمل پيرا تھے اور ان كے بعد تابعين عظام كا عمل بھى سلام كے بعد ثابت ہے.

اور جو كوئى بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے طريقہ كے خلاف كوئى نيا طريقہ اور كام ايجاد كرتا ہے تو وہ كام مردود ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے ”

اس ليے جو امام فرضى نماز ميں سلام كے بعد دعا كرتا اور مقتدى اس كى دعا پر آمين كہتے ہيں اور سب نے ہاتھ اٹھائے ہوتے ہيں اس سے اس عمل كى دليل طلب كى جائيگى جو اس كے اس عمل كو ثابت كرے وگرنہ يہ عمل اس پر مردود ہے.

اور اسى طرح جس نے بھى نوافل كے بعد ايسا كيا اس سے بھى اس كى دليل طلب كى جائيگى جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے تم اپنى دليل لاؤ اگر تم سچے ہو .

اور اس كے متعلق تو ہميں كتاب و سنت سے كسى دليل كا علم نہيں، جو اس كى مشروعيت پر دلالت كرتى ہو جس كا دوسرا گروہ گمان كر رہا ہے كہ سوال ميں مذكور ہيئت اور شكل ميں اجتماعى دعا اور ذكر كرنا مشروع ہے” انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 98 ).

حاصل يہ ہوا كہ اجتماعى ذكر اور تسبيح و تحميد يا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا ـ چاہے وہ كسى بھى صيغہ اور الفاظ ميں ہو ـ سنت نہيں بلكہ بدعات اور دين ميں زيادتى شمار ہوتى ہے.

دوم:

درود كماليۃ ا ن كے مطابق درج ذيل ہے:

” اللهم صلي وسلم وبارك على سيدنا محمد وعلى آله عدد كمال الله وكما يليق بكماله”

يہ درود نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور نہ ہى صحابہ كرام ميں سے كسى صحابى سے منقول ہے، اور نہ ہى يہ سب سے بہتر اور افضل صيغہ اور الفاظ ہيں جيسا كہ بعض لوگ خيال كرتے ہيں، بلكہ افضل الفاظ اور صيغے تو وہ ہيں جس كى تعليم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو دى اور وہ درود ابراہيمى ہے جو تشہد ميں پڑھا جاتا ہے.

بخارى اور مسلم ميں عبدالرحمن بن ابى ليلى سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں مجھے كعب بن عجرۃ رضى اللہ تعالى عنہ ملے اور فرمانے لگے: كيا ميں تجھے كوئى ہديہ اور تحفہ نہ دوں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے پاس تشريف لائے تو ہم نے عرض كيا: ہميں يہ تو معلوم ہو چكا ہے كہ آپ پر سلام كس طرح پڑھا كريں، تو آپ پر درود كس طرح پڑھا كريں ؟

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم كہا كرو:

” اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ”

اے اللہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور ان كى آل پر رحمتيں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر رحمتيں نازل فرمائيں، يقينا تو حمد كے لائق اور بزرگى والا ہے، اے اللہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور ان كى آل پر بركت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر بركت نازل فرمائى، يقينا تو حمد كے لائق اور بزرگى والا ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6357 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 406 ).

اور بخارى و مسلم ميں ہى ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ صحابہ كرام نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم آپ پر درود كس طرح پڑھا كريں ؟

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تم يہ كہا كرو:

” اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ”

اے اللہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور ان كى ذريت اور ان كى ازواج مطہرات پر رحمتيں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر رحمتيں نازل فرمائيں، يقينا تو حمد كے لائق اور بزرگى والا ہے، اے اللہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اور ان كى ذريت اور ان كى ازواج مطہرات پر بركت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر بركت نازل فرمائى، يقينا تو حمد كے لائق اور بزرگى والا ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3369 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 6360 ).

سيوطى رحمہ اللہ ” الحرز المنيع ” ميں لكھتے ہيں:

” ميں نے طبقات تاج سبكى ميں پڑھا ہے انہوں نے اپنے باپ سے درج ذيل كلمات نقل كيے ہيں:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كى سب سے اچھى اور بہتر كيفيت وہ ہے جو تشہد ميں درود بيان ہوا ہے “

وہ كہتے ہيں:

جو شخص بھى يہ درود ( درود ابراہيمى ) پڑھتا ہے تو اس نے يقينى طور پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھا، اور جو كوئى اس كے علاوہ كوئى اور الفاظ والا درود پڑھتا ہے تو اس كے مطلوبہ درود پڑھنے ميں شك ہے؛ كيونكہ صحابہ كرام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا تھا:

اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم آپ پر درود كس طرح پڑھا كريں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تم يہ درود ( ابراہيمى ) پڑھا كرو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے صحابہ كى جانب سے اس كو درود قرار ديا.

سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميں اپنى نوجوانى كے وقت جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھا كرتا تو يہ الفاظ كہتا:

” اللهم صل وبارك وسلم على محمد وعلى آل محمد كما صليت وباركت وسلمت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد “

تو مجھے خواب ميں كہا گيا كيا تم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ فصيح اور كلمات كے معانى كو زيادہ جانتے ہو اور تمہيں جوامع فصل الخطاب كا علم ہے ؟ اگر كوئى معنى زائد نہ ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى اسے نہ چھوڑتے.

تو ميں اس سے استغفار كيا اور رجوع كرتے ہوئے افضل نص كو وجوب اور استحباب ميں استعمال كرنے لگا. انتہى

اور وہ بيان كرتے ہيں: اگر كوئى شخص قسم اٹھائے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر افضل ترين درود پڑھےگا تو نيكى يہى ہے كہ وہ درود ابراہيمى پڑھے” انتہى

منقول از: السنن و المبتدعات تاليف محمد عبد السلام الشقيرى صفحہ ( 232 )، اور تاج سبكى كى كلام ” طبقات الشافعيۃ الكبرى ( 1 / 185 ).

سوم:

درود كماليۃ ميں شرعى محذور يہ ہے كہ وہ كہتے ہيں: ” عدد كمال اللہ ” تو يہاں ظاہرى لفظ كمال اللہ تعالى كو عدد محصور كيا گيا ہے، اس ليے بعض علماء كرام نے اس سے منع كيا ہے جيسا كہ آگے بيان ہو گا.

اور اسى طرح ان كا يہ قول: ” عدد اسماء اللہ ” ؛ كيونكہ اللہ كے اسماء عدد ميں محصور نہيں كيے جا سكتے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” ميں تجھ سے تيرے ہر اس اسم و نام كے ساتھ سوال كرتا ہوں جو تيرا نام ہے، جس سے تو نے اپنے آپ كو موسوم كيا ہے، يا پھر اپنى كسى مخلوق ميں سے كسى ايك كو بتايا ہے، يا اسے اپنى كتاب ميں نازل كيا ہے، يا پھر اسے اپنے پاس علم ميں غيب ميں چھپا كر ركھا ہے ”

مسند احمد حديث نمبر ( 3704 ).

ابن عابدين رحمہ اللہ “حاشيۃ ابن عابدين ” ميں كہتے ہيں:

” تنبيہ:

يہ ديكھنا چاہيے كہ اس طرح مختلف قسم كے درود ميں بھى يہ كہا جائيگا مثلا:

” اللهم صل على محمد عدد علمك وحلمك , ومنتهى رحمتك , وعدد كلماتك , وعدد كمال الله ”

اور اس كے دوسرے كلمات تو اس سے ايك ہى صفت متعدد ہونے كا واہمہ ہوتا ہے، يا پھر علم وغيرہ كے متعلقات كے ختم ہونے كا شبہ، اور خاص كر ” عدد ما أحاط به علمك , ووسعه سمعك وعدد كلماتك ” جيسے كلمات ميں، كيونكہ اللہ كے علم كى تو انتہاء ہى نہيں، اور نہ ہى اس كى رحمت كى انتہاء ہے، اور نہ اس كے كلمات كى.

اور لفظ عدد وغيرہ دوسرے الفاظ اس كے خلاف ظاہر كرتے ہيں، اور ميں نے علامہ الفاسى كى شرح دلائل الخيرات كو ديكھا ہے جس ميں اس كى بحث موجود ہے وہ كہتے ہيں:

” ايسے كلمہ كا اطلاق جس سے واہمہ ہو علماء كرام كے ہاں اس كےجواز ميں اختلاف پايا جاتا ہے، جس سے واہمہ نہ ہو، يا جو سہل تاويل اور واضح محمل ہو، يا پھر صحيح معنى ميں طريقہ استعمال مخصوص ہو.

علماء كى ايك جماعت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كى كيفيات اختيار كى ہيں، ان كا كہنا ہے سب سے افضل كيفيات ہيں، ان علماء ميں عفيف الدين اليافعي اور شرف البارزى اور بھاء بن القطان شامل ہيں اور ان سے ان كے شاگرد المقدسى نے نقل كيا ہے. اھـ

ميں كہتا ہوں: ہمارے آئمہ كى كلام كا مقتضى يہ ہے كہ ايسا نہ كيا جائے، ليكن صرف اس ميں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد اور ثابت ہے، اس ليے ذرا غور تو كريں ” انتہى

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 6 / 396 ).

اور يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ وہ كيفيت جو آپ نے سوال ميں بيان كى ہے وہ سنت سے ثابت نہيں، حتى كہ اگر اس كيفيت ميں درود ابراہيمى بھى پڑھا جائے تو صحيح نہيں ہو گا، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جس سے وہ راضى ہوتا ہے اور محبت كرتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android