نوجوان لڑكيوں ميں آج كل رنگ برنگے دھاگے سے بنى ہوئى چوڑياں اور كڑے بہت معروف ہيں، اور اس كے متعلق چھوٹے چھوٹے كتابچے بھى ملتے ہيں جو انہيں بنانے اور پہننے كے طريقے بيان كرتے ہيں، لڑكياں زينت كے ليے پہنتى ہيں، سوال يہ ہے كہ:
1 – آيا يہ اس ممنوعہ دھاگہ ميں تو شامل نہيں جسے پہننے كى نہى آئى ہے ؟
2 – اگر يہ نقصان دور كرنے كے ليے نہ بھى پہنے جائيں تو كيا پھر بھى مشركوں سے مشابہت ميں داخل ہوتے ہيں ؟
3 – كيا برائى كور وكنے كے ليے مقصد معتبر ہے. ؟
دھاگے سے بنى ہوئى چوڑياں پہننے كا حكم
سوال: 88485
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس قسم كے كڑے اور چوڑيوں ميں اصل تو اباحت اور جواز ہى ہے، كيونكہ عورت اس سے زينت حاصل كرتى ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے بغير كسى دليل شرعى كے زينت حرام كرنے والے كى مذمت كرتے ہوئے فرمايا ہے:
آپ كہہ ديں كے اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو، جنہيں اللہ تعالى نے اپنے بندوں كے ليے بنايا ہے، اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے؟ آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر كہ قيامت كے روز خالصتا اہل ايمان كے ليے ہونگى اور دنياوى زندگى ميں بھى مومنوں كے ليے ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے ليے صاف صاف بيان كرتے ہيں الاعراف ( 32 ).
چنانچہ زينت ميں سے كچھ بھى بغير دليل شرعى كے حرام نہيں كيا جا سكتا، صرف وہى حرام ہوگى جس كى حرمت ميں شرعى دليل مل جائے، اور جب كى حرمت كى كوئى دليل نہيں تو وہ حلال ہے.
دوم:
رہا مسئلہ ان كڑوں اور چوڑيوں كا دھاگہ پہننے كے حكم ميں داخل ہونے كا تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ:
تو دھاگہ پہننے كى ممانعت اور نہى سے مراد يہ ہے كہ جو شخص نظر بد سے بچنے، يا كسى بيمارى كو دور كرنے كے ليے پہنے، اس ميں يہ ثابت نہيں كہ دھاگہ اس بيمارى سے حصول شفا كا سبب ہے، ليكن زينت و خوبصورتى كے ليے پہننا اس ممانعت اور نہى ميں داخل نہيں ہوتا.
اگر تو يہ دھاگے كسى بيمارى كو دور كرنے، يا نظر بد سے بچنے كے ليے پہنے جائيں تو يہ حرام ہيں، اور عورت كو اسے پہننے سے روكا جائيگا، چاہے وہ اس حرام مقصد كا قصد نہ بھى كرے، بلكہ اس نے مباح مثلا زينت كا قصد كيا ہو، اس ليے كہ يہ اس وقت ان سے مشابہت اختيار كر جائيگى، اور اپنے آپ كو لوگوں كے قيل و قال كے ليے پيش كريگى، كہ لوگ يہ گمان كرينگے كہ اس نے بھى اس حرام مقصد اور غرض كے ليے پہن ركھا ہے، اور پھر اس ميں اس سے بھى بڑى خرابى يہ ہو گى كہ دوسرى عورتيں بھي اس كى تقليد كرتے ہوئے پہنيں گى اور خاص كر جب وہ عورت دوسروں كے ليے قدوہ اور نمونہ ہو.
اور رہا اہل شرك سے مشابہت كا مسئلہ تو يہ محل نظر ہے: اس ميں ديكھا جائيگا كہ اگر تو يہ چيز ان كے خصائص اور شعار و علامت ميں شامل ہوتا ہو تو پھر اسے پہننا حرام ہے، كيونكہ شريعت ميں يہ بات مقرر شدہ ہے كہ اللہ تعالى كے دشمنوں سے مشابہت اخيتار كرنا حرام ہے، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے ”
اسے ابوداود نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور جب يہ ثابت ہو جائے كہ اس ميں كفار سے مشابہت ہے تو اسے پہننا حرام ہو گا، اگرچہ اسے پہننے والے كا مقصد كفار سے مشابہت نہ بھى ہو، كيونكہ لباس اور شكل و شباہت اور ہيئت ميں كفار كى مشابہت ہوتى ہے، چاہے پہننے والے نے مشابہت كا قصد كيا ہو يا نہ كيا ہو، جيسا كہ شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ” القول المفيد ” ( 3 / 203 ).
رہا مسئلہ برائى كور وكنے كے ليے مقصد معتبر ہونے كا: ت واس كے متعلق عرض ہے كہ: جس كے متعلق ثابت ہو جائے كہ وہ شرعا برائى ہے تو اسے روكنا واجب ہے، اور اسے سرانجام دينے والے كا مقصد معتبر نہيں ہوگا، كيونكہ اچھى اور بہتر نيت برائى كو نيكى نہيں بنا سكتى، لہذا برائى اور منكر كو اگر كوئى شخص اچھى نيت كے ساتھ كرے تو وہ برائى ہى رہےگى.
ليكن نيت ـ چاہے وہ برى ہو يا اچھى ـ مباح اشياء كو عبادات يا معاصى ميں تبديل كر ديتى ہے، چنانچہ جس شخص نے كھانا اس نيت سے كھايا كہ وہ اس سے عبادت اور اطاعت كرنے كے ليے تقويت حاصل كرنا چاہتا ہے، تو يہ اطاعت و عبادت بن جائيگا، اور اگر اس نے نيت كى كہ وہ لوگوں پر ظلم و ستم اور فجور كے ليے تقويت حاصل كرنا چاہتا ہے تو يہ معصيت ہے.
جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:
يہ ہار اور كڑے اور چوڑياں وغيرہ اگر تو نظر بد يا جن وغيرہ سے بچنے كےليے، يا پھر نصيب برلانے كے ليے پہنے جائيں تو ان كا پہننا حرام ہوگا.
اور اسى طرح اگر يہ كفار كى خصوصيت اور ان كے لباس ميں شامل ہو تو بھى حرام ہے، اس ميں پہننے والى كى نيت معتبر نہيں ہو گى، كہ آيا اس نے نظر بد سے بچنے كى نيت كى ہے يا نہيں ؟ يا اس نے كفار سے مشابہت كى نيت كى ہے يا نہيں ؟
ليكن اگر اس نے نظر بد سے بچنے كے ليے نہيں پہنے، اور نہ ہى اس ميں كفار سے مشابہت ہوتى ہے، اور اسے پہننے والى كا مقصد زينت و خوبصورتى ہے تو يہ مباح ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب