ميں تربيتى نگران ہوں يعنى سكولوں كا ويزٹ كرتى ہوں اور مجھے شام كے وقت بھى ڈيوٹى دينے كا پابند كيا گيا ہے جس كے عوض ميں مجھے تنخواہ كا ايك چوتھائى حصہ زائد ملتا ہے، كہ شام كے وقت سكولوں كا ويزٹ اور معلمات كى نگرانى كروں، يہ كام ايك ماہ ميں انتاليس گھنٹے ہونا چاہيے، مجھے محكمہ تعليم كى جانب سے ڈارئيور بھى مہيا كيا گيا ہے اسے بھى ايك چوتھائى تنخواہ ملتى ہے.
مشكل يہ ہے كہ بہت دفعہ ايسا ہوا ہے كہ ميں نے اپنا كام انتاليس گھنٹوں سے بھى كم وقت ميں پورا كر ليا يعنى تيس گھنٹوں ميں اپنا كام سميٹ ليتى ہوں، تو كيا مجھے اور ميرے ڈرائيور كو پورى تنخواہ لينے كا حق حاصل ہے ؟
اگر جواب نفى ميں ہو تو پھر اس ميں ڈرائيور كا قصور كيا ہے، كيا اس كى تنخواہ سے بھى كٹوتى ہو گى ؟
اور ميں نے جو تنخواہ انتاليس گھنٹوں سے كم ميں كام مكمل كر كے حاصل كى ہے اس كا حكم كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرى كچھ سہيلياں بعض اوقات جا كر بات چيت ميں وقت پورا كرتى ہيں، وہ كوئى كام نہيں كرتى بلكہ صرف وقت پورا كرتى ہيں، ميرے بچے بھى ہيں اور ميرى دوسرى مصروفيات بھى ہيں، ميں پورا وقت لكھنے كى كوشش نہيں كرتى كيونكہ ڈرائيور كى تنخواہ بہت كم ہے، اور اگر اس كى تنخواہ سے كٹوتى ہو تو اس كے ليے باقى كچھ نہيں بچتا ميرى آپ سے گزارش ہے كہ آپ ميرے سوال كا جواب ضرور ديں، اور اس كو ويسے ہى نہ رہنے ديں، كيونكہ يہ اہم ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
ڈيوٹى ختم ہونے سے قبل كام مكمل ہونے كى صورت ميں پورا وقت لكھنے كا حكم
سوال: 90076
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب آپ كا اتفاق اور معاہدہ محدود گھنٹوں ميں كام كرنے كا ہے، اور آپ سے وقت لكھنے اور مدون كرنے كا مطالبہ بھى ہے تو پھر آپ پر اسے پورا كرنا لازم ہے، يا پھر آپ وہ حقيقى وقت لكھيں جتنا آپ نے كام كيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور آپ نے جو عذر بيان كيے ہيں كہ ڈرائيور كو مال كى ضرورت ہے، يا پھر آپ مطلوبہ كام كم وقت ميں مكمل كر ليتى ہيں، يا دوسرى معلمات وقت ضائع كرتى ہيں جس سے كام كو كوئى فائدہ نہيں ہوتا، يا آپ كى اولاد ہے اور آپ كى اور بھى ذمہ دارياں ہيں….
يہ سب كچھ آپ كے ليے نہ تو جھوٹ كو مباح كرتے ہيں، اور نہ ہى امانت ميں خيانت كو، كيونكہ آپ گھنٹوں ميں كام كرنے امانتدار ہيں، اور يہ بھى امانت ہے كہ آپ وہ وقت لكھيں.
اب آپ كے سامنے دو راستے ہيں:
پہلا:
آپ محكمہ كو حقيقت حال كا بتائيں، كہ آپ مطلوبہ كام مقرر كردہ وقت سے قبل مكمل كر ليتى ہيں، پھر جس پر آپ كا اتفاق ہو جائے اس كے مطابق آپ كام كريں.
دوسرا:
آپ جتنا كام كريں اتنے گھنٹے ہى لكھيں، اور اس ميں كوئى زيادتى نہ كريں، تا كہ آپ وہ مال نہ حاصل كريں جس كا آپ حق نہيں ركھتيں.
اور اس سے قبل آپ نے جو تنخواہ وصول كى ہے اگر تو ممكن ہو تو آپ وہ ادارہ تعليم كو واپس كريں، ليكن اگر ايسا ممكن نہيں تو پھر آپ مستقبل كى تنخواہ سے اتنى كٹوتى كروا ليا كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب