ميں حج كرنے كى استطاعت ركھتا ہوں، ليكن گاڑى خريدنا چاہتا ہوں، تو كيا ميرے ليے گاڑى خريدنا جائز ہے، كيونكہ ايسا كرنے سے حج ميں تاخير پيدا ہو سكتى ہے ؟
اس كے پاس اتنا مال ہے كہ اگر گاڑى خريدے تو حج نہيں كر سكتا
سوال: 90223
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو آپ كو گاڑى كى ضرورت اور حاجت ہے تو پھر گاڑى خريدنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے ايسا كرنے سے حج ميں تاخير بھى ہو؛ كيونكہ حج فرض ہونے كى شروط ميں مالى استطاعت بھى شامل ہے.
مالى استطاعت كا معنى يہ ہے كہ انسان كى اصل ضروريات سے زيادہ مال ہو تو پھر حج فرض ہوتا ہے، اور يہ ضروريات انسان كى سوارى كے ليے گاڑى بھى ہے، ليكن يہ گاڑى اس كى حالت كے مناسب ہو، اور گاڑى خريدنے ميں غلو اور كسى تقليد اور دوسروں كو دكھانے سے كام ليتے ہوئے قيمتى گاڑى مت خريدے.
حج فرض ہونے كى شروط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 41957 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اگر آپ گاڑى كے محتاج نہ ہوں تو پھر آپ كے ليے گاڑى كى خريدارى پر حج مقدم كرنا واجب ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى روزى ميں كشادگى پيدا كرتے ہوئے پاكيزہ اور بابركت روزى عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات