كيا كوئى دوسرى عورت ميرى بغلوں كے بال صاف كر سكتى ہے ؟
كسى دوسرے كى مدد سے بغلوں كے بال صاف كرنا
سوال: 9028
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى امت كے ليے فطرتى سنتيں مشروع كى ہيں، جو كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوئى ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دس چيزيں فطرت ميں سے ہيں: مونچھيں كاٹنا، داڑھى بڑھانا، اور مسواك كرنا، اور ناك ميں پانى چڑھانا، اور ناخن كاٹنا، انگليوں كے پورے دھونا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور زيرناف بال مونڈنا، اور پانى سے استنجا كرنا "
زكريا رحمہ اللہ كہتے ہيں: مصعب كہتے ہيں كہ ميں دسويں بھول گيا ہو سكتا ہے وہ كلى كرنا ہو"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 261 ).
انتقاص الماء: يعنى استنجا كرنا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں سے بعض كے ليے وقت مقرر كيا ہے كہ يہ اشياء چاليس يوم سے زيادہ دير تك نہ چھوڑى جائيں، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے.
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مونچھيں كاٹنے، اور ناخن اتارنے، اور بغلوں كے بال اكھيڑنے، اور زيرناف بال مونڈنے ميں وقت مقرر كيا كہ ہم انہيں چاليس راتوں سے زيادہ نہ چھوڑيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 258 ).
دوم:
مرد كے ليے مرد اور عورت كے ليے عورت كى شرمگاہ ديكھنى جائز نہيں ہے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو كوئى مرد كسى مرد كى اور نہ ہى كوئى عورت كسى عورت كى شرمگاہ ديكھے، اور نہ ہى كوئى مرد كسى مرد كے ساتھ ايك ہى كپڑے ميں اكٹھے سوئيں، اور نہ ہى كوئى عورت كسى عورت كے ساتھ ايك ہى كپڑے ميں اكٹھى سوئے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 338 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں مرد كا مرد كى شرمگاہ اور عورت كا عورت كى شرمگاہ كى طرف ديكھنے كى حرمت پائى جاتى ہے، اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور اسى طرح مرد كا عورت كى شرمگاہ، اور عورت كا مرد كى شرمگاہ ديكھنا بالاجماع حرام ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد كا عورت اور عورت كا مرد كى شرمگاہ كى طرف ديكھنے كى حرمت كى بطريق اولى تنبيہ كى ہے.
اور اس سے خاوند اور بيوى مستثنى ہيں، كيونكہ وہ دونوں ايك دوسرے كے ستر اور شرمگاہ كو ديكھ سكتے ہيں، اور رہا مسئلہ محرم كا تو اسميں صحيح يہى ہے كہ وہ گھٹنے سے نيچے اور ناف سے اوپر ايك دوسرے كو ديكھ سكتے ہيں.
ان كا كہنا ہے: جو كچھ بھى ہم نے ذكر كيا ہے وہ بغير كسى ضرورت كے حرام ہوگى، اور جو جائز كہا ہے وہ شہوت كے بغير جائز ہوگا.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 339 ).
سوم:
عورت كسى دوسرى عورت كى بغلوں كے بال اتار سكتى ہے؛ كيونكہ عورت كى بغليں كسى دوسرى عورت كے ليے ستر ميں شامل نہيں ہوتى، ليكن شرط يہ ہے كہ جب فتنہ سے امن ہو، يعنى وہ عورت پرفتن نہ ہو، اور وہ عورت اپنے خاوند يا كسى اور عورت كو اس عورت كے جسم كى صفات نہ بتائے.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 258 ).
چہارم:
اور رہا مسئلہ بغلوں كے بال اكھيڑنے كى بجائے كسى پاؤڈر يا كريم وغيرہ سے صاف كرنا تو اس كے متعلق مستقلى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مرد اپنى بغلوں يا زيرناف بال صاف كرنے كے ليے پاؤڈر يا كريم وغيرہ استعمال كر سكتا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
جى ہاں بغلوں اور زيرناف بال صاف كرنے كے ليے اس كا استعمال كرنا جائز ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 171 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب