كسى عالم دين كى وفاۃ كا سو سالہ يا چاليس سالہ جشن منانے كا حكم كيا ہے ؟
بعض علماء كى ياد ميں جشن منانا
سوال: 9055
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بعض اسلامى معاشروں ميں كچھ بدعات اور نئے امور ظاہر ہوئے ہيں جن ميں بعض فوت شدگان ياد پر جشن منائے جاتے ہيں خاص كر علماء كرام كى وفات كے سو سال يا چاليس برس جسے سلور يا گولڈن جوبلى كا نام ديا جاتا ہے.
يہ جشن اشخاص كے اعتبار سے مختلف ہوتے ہيں: اس ليے اگر كوئى عام شخص ہو يا اہل علم كى طرف منسوب ہوتا ہو چاہے وہ جاہل ہى ہوں تو اس كى موت كے چاليس يوم بعد اس كے اہل و عيال فوت شدہ كى ياد ميں جشن مناتے ہيں جسے وہ چاليسواں كا نام ديتے ہيں.
اس اجتماع ميں لوگ مخصوص خيموں يا پھر متوفى كے گھر ميں جمع ہو كر قرآن خوانى كرتے ہيں اور شادى كى طرح دعوت اور كھانا تيار كيا جاتا ہے، اور اس جگہ چراغاں كيا جاتا ہے اور اس ميں بے دريغ خرچ كرتے ہيں، اس سب ميں ان كى غرض دكھلاوا اور ريا اور مقابلہ بازى ہوتى ہے، اس كے حرام ہونے ميں كوئى شك نہيں، كيونكہ اس ميں ميت كے مال كا ضياع ہوتا ہے اور كسى صحيح غرض ميں خرچ نہيں ہوتا.
اور نہ ہى ايسا كرنے سے ميت كو كوئى فائدہ پہنچتا ہے، بلكہ اہل ميت كوخ سارہ اور نقصان ہوتا ہے، يہ تو اس صورت ميں ہے جب ورثاء ميں كوئى قاصر شخص نہ ہو، ليكن اگر ان ميں كوئى قاصر ہو تو پھر كيا حال ہو گا!!!! اور بعض اوقات تو اس كے ليے تكلف سے كام ليتے ہوئے قرض بھى لينا پڑے تو بے دريغ سود پر قرض حاصل كر ليتے ہيں، اللہ تعالى ہميں اپنے غضب و ناراضگى سے محفوظ ركھے.
ديكھيں: الابداع ( 228 ).
ابن قيم جوزيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت تھى كہ آپ اہل ميت سے تعزيت كرتے، ليكن آپ كا يہ طريقہ نہيں تھا كہ اس تعزيت كے ليے جمع ہوں اور قرآن خوانى كريں، نہ تو قبر كے پاس اور نہ ہى كہيں دوسرى جگہ، يہ سب بدعت اور نئى ايجاد اور مكروہ ہے ” اھـ
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 527 ).
اور على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آج كل لوگ تعزيت كے ليے آنے والوں كے ليے جو كھانا تيار كرتے ہيں، اور جو ماتم و سوگ كى راتوں ميں اخراجات كيے جاتے ہيں مثلا چاليسواں وغيرہ كے موقع پر تو يہ سب بدعات مذمومہ ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت كے مخالف ہيں، اور سلف كى راہ كے بھى مخالف ہے ” اھـ
الابداع ( 230 ).
يہ جشن دين ميں نئى ايجاد و بدعت ہے، نہ تو اس كا ثبوت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے اور نہ ہى صحابہ كرام اور سلف صالحين سے، اور اس ميں سنت طريقہ يہ ہے كہ اہل ميت كے ليے كھانا تيار كر كے انہيں بھيجا جائے، نہ كہ وہ خود لوگوں كے ليے كھانا تيار كريں اور لوگوں كو كھانے كى دعوت ديں.
جب جعفر بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كى موت كى خبر آئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آل جعفر كے ليے كھانا تيار كرو، كيونكہ انہيں وہ مصيبت آئى ہے جس نے انہيں مشغول كر ديا ہے “
مسند احمد ( 1 / 205 ) سنن ابو داود كتاب الجنائز ( 3 / 497 ) حديث نمبر ( 3132 ) سنن ترمذى ابواب الجنائز ( 2 / 234 ) حديث نمبر ( 1003 ) اور اسے حسن كہا ہے، سنن ابن ماجہ كتاب الجنائز ( 1 / 514 ) حديث نمبر ( 1610 ) مستدرك الحاكم كتاب الجنائز ( 1 / 372 ) اور اسے صحيح الاسناد قرار ديا ہے ليكن بخارى و مسلم نے اسے روايت نہيں كيا اور امام ذہبى نے التلخيص ميں اس كى موافقت كى ہے.
اور جرير بن عبد اللہ البجلى كہتے ہيں:
ہم اہل ميت كے ہاں جمع ہونا اور كھانا تيار كرنے كو نوحہ اور ماتم شمار كرتے تھے. اھـ
سنن ابن ماجہ كتاب الجنائز ( 1 / 514 ) حديث نمبر ( 1612 ).
بوصيرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس كى سند صحيح ہے اور پہلے طريق كے روات بخارى كى شرط پر ہيں، اور دوسرے طريق كے روات مسلم كى شرط پر ” اھـ
ديكھيں: زوائد ابن ماجۃ ( 2 / 53 ).
ليكن اگر يہ علماء كى ياد ميں دن منايا جائے يعنى اس كى تاريخ وفات كے ايك يا كئى معين برس بعد خاص جشن ہو جس ميں كئى سكالر حضرات كو ليكچر دينے يا پھر اس شخص كى سيرت اور شخصيت كے متعلق مقالہ لكھنے كا كہا جائے اور اس كى تاليف كا منہج بيان كرنے كا كہا جائے، اور يہ سب كچھ اس جشن ميں بيان ہو، اور اس كى كتابيں چھاپى جائيں يا اہم كتابيں طبع كى جائيں، اور انہيں ماركيٹ ميں لايا جائے اور تقسيم ہو تا كہ ان كى ياد تازہ ہو اور ان علماء كے علم اور كوشش كو واضع كيا جائے كہ انہوں نے كس طرح علم كى خدمت كى.
اور اگر يہ جشن بادشاہ اور حكمران يا سردار كا اس مناسبت سے جشن اور دن منايا جائے كہ ان كى حكمرانى كا دور كيسا تھا، اور اس مناسبت سے كتاب بھى شائع كى جائے.
اور كچھ لوگ اس موقع پر اس شخص كى قبر پر جا كر پھول چڑھائيں اور اس كى روح كے ليے فاتحہ پڑھيں اور قرآن خوانى كريں يہ سب بدعات ہيں اور اللہ نے اس كى كوئى دليل نہيں اتارى.
ان لوگوں كى سيرت اور علمى كتابيں نشركرنے اور اس كے تاليفى منہج كى طباعت ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ اگر وہ اس كا مستحق ہے تو يہ ضرور كيا جائے، ليكن اس كے ليے كوئى خاص وقت اور مدت مخصوص نہ كى جائے، اور نہ ہى اس كے ليے كوئى جشن منايا جائے اور نمائش كا اہتمام نہ ہو، اور اسى طرح حكمران و بادشاہ كا بھى.
بعض فوت شدگان مثلا علماء اور حكمرانوں اور بعض عام افراد كى موت كى ياد اور دن منانا بدعت ہے اور يہى اس كى مذمت كے ليے كافى ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علم سے زيادہ كوئى عالم نہيں، اور نہ ہى آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ سے كسى دوسرے كا طريقہ افضل ہو سكتا ہے، اور نہ ہى آپ كے مقام و شرف سے زيادہ كسى كا مقام و مرتبہ اور شرف ہو سكتا ہے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم افضل الخلق ہيں.
ليكن اس كے باوجود صحابہ كرام نے آپ كى ياد ميں كوئى دن نہيں منايا، حالانكہ صحابہ كرام كى نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كى طرح كوئى اور محبت كر ہى نہيں سكتا، اور نہ ہى تابعين و سلف صالح رحمۃ اللہ عليہم كى طرح، اگر يہ خير و بہتر ہوتا تو يہ لوگ اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.
اس ليے علماء كرام كى عزت و توقير اور قدر ان كى ياد ميں دن منانے ميں نہيں، بلكہ ان كے علم اور كتابوں سے استفادہ كرنے اور اسے نشر و اشاعت اور مطالعہ كرنے اور اس كى شرح وغيرہ ميں ہے.
يہ تو اس صورت ميں ہے جب وہ اپنے سلفى اور صحيح و سليم منہج كى بنا پر اس كے مستحق ہوں، اور ان كا منہج گمراہ فرقوں يا يورپى تہذيب سے متاثر نہ ہو.
سلف صالحين اور ان كے بعد والے علماء كى ياد اور ان كى روايات محفوظ ہيں، اور انہوں نے لوگوں كے ليے جو علم ظاہر كيا وہ موجود ہے، عالم تو اس دنيا فانى سے فوت ہو جاتا ہے ليكن اس كا علم باقى رہتا ہے اور لوگوں نسل در نسل متنقل ہوتا رہتا ہے.
لوگوں نے جو ان كے علم سے فيض استفادہ كيا ہے اس كى بنا پر وہ ان كے ليے رحم كى دعا كرتے ہيں، اور ان كے ليے اجروثواب كے طلبگار رہتے ہيں، يہ ان كى ياد كا سب سے زيادہ اظہار ہے.
ليكن ان كى ياد ميں دن منانا اور ان كى باقيات و آثار سے تبرك حاصل كرنا اور ان كى قبروں كا طواف كرنا يہ سب بدعات و منكرات ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ بعض تو نعوذ باللہ شرك كى حد تك پہنچ جاتى ہيں.
اور اگر يہ علماء كرام ( جن كى ياد ميں دن منايا جاتا ہے اور تبرك حاصل كيا جاتا ہے ) زندہ ہوں تو ايسے كام كرنے والوں كو اس سے روكيں.
ليكن بعض لوگوں كو شيطان نے دھوكہ ميں ڈال كر گمراہ كر ديا ہے، وہ بدعات كى دعوت ديتے ہوئے دنيا حاصل كرنے يا منصب حاصل كرنے كى كوشش ميں ہيں، اس ليے وہ ايسى بدعات ميں جا نكلے ہيں جس سے چھٹكارا حاصل كرنا مشكل ہے، صرف اسى صورت ميں چھٹكارا حاصل ہو سكتا ہے كہ كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف واپس پلٹ آئيں اور اس پر عمل پيرا ہوں، اور علماء كے اجماع پر عمل كرتے ہوئے بدعات كو ترك كرديں جو بذاتہ شر ہيں، اور عظيم شر و برائى كى طرف لے جاتى ہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں صراط مستقيم كى ہدايت نصيب فرمائے، ان لوگوں كى راہ جن پر اللہ نے انعام كيا صديقوں اور نبيوں اور شہداء و صالحين كى راہ دكھائے، اور ہمارے اور جن لوگوں پر غضب نازل ہو اور گمراہ لوگوں كى راہ ميں دورى پيدا فرمائے يقينا اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے.
ماخذ:
البدع الحوليۃ تاليف شيخ عبد اللہ بن عبد العزيز بن احمد التويجرى ( 350 )