مجھے علم ہے كہ سنت يا اسلام كے كسى جزء اور ركن كو مذاق اڑانے سے آدمى كافر ہو جاتا ہے، ليكن اگر انسان بدعتى شخص كے اعتقادات كا مذاق اڑائے تو كيا حكم ہے مثلا كوئى مرجى شخص يہ كہہ كر مذاق اڑائے كہ آپ كو نماز ادا كرنے كى كوئى ضرورت نہيں نماز تو دل كى ہوتى ہے ” ليكن وہ يہ سمجھ كر نماز ادا كرتا ہے كہ يہ تو ايك لطيفہ ہے تو يہ مرجيہ كى جانب سے مذاق ہے مجھے علم ہے يہ گناہ ہے لين ليكن كيا يہ كفر اكبر ہے كيونكہ يہ لطيفہ اسلام كے ايك ركن كو بنايا گيا ہے باوجود اس كے كہ يہ بدعتى كو كيا گيا ہے ؟
بدعتى كا مذاق اڑانا
سوال: 9057
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كافروں كو ان كے كفر ميں اور بدعتيوں كو ان كى بدعات ميں مذاق كرنا مباح ہے، كيونكہ معصيت و نافرمانى اور فسق كى بنا پر ان كو كوئى حرمت حاصل نہيں، انہوں نے اللہ تعالى اور دين كى حرمت كو پامال كيا ہے لہذا ان كو بھى كوئى حرمت حاصل نہيں ہے.
ليكن مذاق كرنے والا اسے عادت ہى نہ بنا لے اور نہ ہى حق اور سنجيدگى سے باہر جائے، اور نہ ہى اس كى سنجيدگى پر مذاق غالب ہو، جس سے ہم بچنے كا كہہ رہے ہيں اكثر لوگوں كى يہ عادت بن چكى ہے.
اور جب مذاق ہو تو وہ سنت كے مخالف سے زبان كے ساتھ ہو نہ كہ مخالف كے ساتھ اس كى ہيئت اور لباس اور چال وغيرہ ميں.
رہا يہ سوال كہ آيا يہ معصيت و نافرمانى ہے ؟
صحيح يہ ہے كہ ايسا نہيں بلكہ بعض اوقات ايسا كرنا جائز ہے، تو اس طرح يہ بالاولى كفر مخرج عن الملۃ نہيں ہو گا؛ كيونكہ ان كا حق كو ترك كرنا اور باطل كى پيروى كرنا اللہ كى حرمت كے ساتھ مذاق كے مترادف ہے.
لالكائى رحمہ اللہ نے سلف رحمہ اللہ سے اس ميں بعض آثار سندا روايت كيے ہيں:
– اعمش ابراہيم سے بيان كرتے ہيں كہ: بدعى شخص كى غيبت نہيں ہے.
– حسن بصرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
تين اشخاص كى غيبت ميں كوئى حرمت نہيں جن ميں ايك وہ بدعتى شخص شامل ہے جو بدعت ميں غلو كرتا ہے.
– ہشام حسن رحمہ اللہ سے بيان كرتے ہيں:
فاسق اور بدعتى جو اعلانيہ فسق كرتا ہے كى كوئى غيبت نہيں.
حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں:
بدعتيوں كى كوئى غيبت نہيں.
كثير ابو سہل كہتے ہيں: اہل اھواء اور خواہشات كى كو كوئى حرمت حاصل نہيں.
ديكھيں: اعتقاد اھل السنۃ ( 1 / 140 ).
سائل نے جو مثال بيان كى ہے كہ: نماز پڑھتے وقت اس كا كہنا: نماز كى كوئى ضرورت نہيں كيونكہ نماز تو دل كى ہوتى ہے “
يہ قول كفر نہيں كيونكہ ايسا كہنے والا نماز كو استھزاء اور مذاق نہيں كر رہا، بلكہ اس كا قصد تو شريعت كے مخالف قول كا استھزاء اور اس كو باطل كرنا ہے.
حاصل يہ ہوا كہ: بدعتيوں كے اقوال كا استھزاء كرنا حرام اور كفر نہيں ہے.
ليكن ہم يہ پسند نہيں كرتے كہ بدعتى فرقوں كا رد اور انكار استھزاء اور مذاق كے ساتھ كيا جائے، بلكہ ان كے ساتھ اچھے اور بہتر انداز ميں بحث و مناقشہ كيا جائے، اور مناقشہ كرتے وقت آپ كى سوچ ان كى راہنمائى اور حق كى طرف ہدايت ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى نے موسى اور ھارون عليہما السلام كو فرعون كى جانب بھيجتے ہوئے فرمايا تھا:
تم دونوں اسے نرم لہجہ ميں بات كرنا شايد وہ نصيحت حاصل كرے يا ڈر جائے طہ ( 44 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب