ميں ايك بيوہ كو جانتا ہوں اور اس كے بچے بھى ہيں، ميں شادى كرنا چاہتا ہوں اور متردد ہوں كہ آيا اس بيوہ سے شادى كروں يا كنوارى لڑكى سے ؟
بيوہ سے شادى كرے يا كنوارى لڑكى سے
سوال: 9126
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ خاوند كى حالت پر منحصر ہے، بعض اوقات خاوند كى حالت كے مطابق بيوہ عورت سے شادى كرنا مناسب ہوتا ہے اور يہ افضل ہو گا.
ہو سكتا ہے بيوہ عورت دين و اخلاق والى عورت ہو اور اس جيسا اخلاق و دين كسى دوسرى عورت ميں نہيں، اور كنوارى لڑكيوں ميں اس طرح كا دين و اخلاق نہيں پائيگا.
ليكن عمومى طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كنوارى لڑكى سے شادى كرنے كى ترغيب دلالئى ہے.
جب جابر رضى اللہ تعالى عنہ كے والد فوت ہو گئے اور اپنے پيچھے انہوں نے جابر كى بہنيں چھوڑيں تو ان كى حالت كے مناسب يہى تھا كہ وہ كسى كنوارى لڑكى سے شادى نہ كريں جو ان كى بہنوں جتنى عمر كى ہو، تو جابر رضى اللہ تعالى عنہ نے كسى بڑى عمر كى شادى شدہ عورت سے شادى كرنے كى رغبت كى جو ان كى بہنوں كى ديكھ بھال كرے اور خيال ركھے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى موافقت كى.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
كيا تم نے شادى كر لى ہے ؟
تو ميں نے عرض كي: جى ہاں.
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كنوارى يا كہ شادى شدہ ؟
ميں نے عرض كيا: بلكہ پہلے سے شادى شدہ عورت سے شادى كى ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم نے كسى كنوارى لڑكى سے شادى كيوں نہ كى جو تمہيں كھلاتى اور تم اسے كھلاتے ؟
ميں نے عرض كيا: ميرى بہنيں تھيں تو ميں نے پسند كيا كہ كسى ايسى عورت سے شادى كروں جو ان كى كنگھى كيا كرے اور ان كى ديكھ بھال كرے اور خيال ركھے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم جانے والے ہو جب پہنچو تو بچے كى رغبت ركھو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1991 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 715 ).
اور بخارى كى روايت ميں ہے:
” انہيں تعليم دے اور ان كى تربيت كرے اور ادب سكھائے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2257 ).
اور ايك روايت ميں ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
” جب رسول كريم صلى اللہ عليہ نے مجھ سے دريافت كيا كہ آيا تم نے كنوارى سے شادى كى يا شادى شدہ عورت سے ؟ تو ميں نے عرض كيا: شادى شدہ سے تو آپ نے مجھے فرمايا:
تم نے كنوارى لڑكى سے شادى كيوں نہ كى وہ تجھے كھلاتى اور تم اسے كھلاتے.
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعال كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے والد فوت ہو گئے، يا عرض كيا وہ شہيد ہو گئے تو ميرى چھوٹى چھوٹى بہنيں تھيں، اس ليے ميں نے ان جيسى ہم عمر لڑكى سے شادى كرنا مناسب نہ سمجھا كيونكہ نہ تو وہ ان كو ادب سكھائيگى اور نہ ہى تربيت كريگا اور نہ ان كا خيال ركھےگى اور ديكھ بھال كر سكے گى اس ليے ميں نے شادى شدہ عورت سے شادى كى تا كہ وہ ان كا خيال ركھے اور انہيں ادب سكھائے اور ان كى ديكھ بھال كرے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2805 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 715 ).
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميرے والد فوت ہوئے اور انہوں نے سات يا نو بيٹياں چھوڑيں تو ميں نے ايك شادى شدہ عورت سے شادى كر لى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
اے جابر تم نے شادى كر لى ؟ تو ميں نے عرض كيا: جى ہاں يا رسول صلى اللہ عليہ وسلم، تو آپ نے فرمايا: كنوارى سے يا كہ شادى شدہ سے ؟
ميں نے عرض كيا: بلكہ شادى شدہ عورت سے تو آپ نے فرمايا: تم نے كنوارى لڑكى سے شادى كيوں نہ كى تم اس سے كھيلتے اور وہ تم سے كھيلتى، تم اسے ہنساتے اور وہ تم كو ہنساتى ؟
تو ميں نے عرض كيا: عبد اللہ فوت ہوئے اور بيٹياں چھوڑ گئے اور ميں نے ناپسند كيا كہ ان جيسى ہم لڑكى لاؤں اس ليے ميں نے ايك عورت سے شادى كى جو ان كى ديكھ بھال كرے اور خيال ركھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ آپ كو بركت سے نوازے يا فرمايا: آپ كو خير و بھلائى سے نوازے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5052 ).
شيخ مصطفى الرحيبانى كہتے ہيں:
اور جو نكاح كرنا چاہے ( اس كے ليے كنوارى لڑكى سے نكاح كرنا مسنون ہے ) كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:
” تم نے كنوارى لڑكى سے شادى كيوں نہيں كى تم اس سے كھيلتے اور وہ تم سے كھيلتى ” متفق عليہ.
( ليكن يہ كہ اگر شادى شدہ عورت سے نكاح كرنے ميں كوئى راجح مصلحت ہو ) تو مصلحت كا خيال كرتے ہوئے اسے كنوارى پر مقدم كيا جائيگا ”
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 9 – 10 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد