باہر سے درآمد شدہ يورپى سٹائل كے لباس كے ڈيزائن اور ماڈل پر مشتمل كيٹلك بك اور ميگزين اس دليل كى بنا پر خردينے كا حكم كيا ہے كہ عورتيں ماركيٹ نہ جائيں، بلكہ وہ ان كيٹلك بكوں اور ميگزين پر انحصار كر كے لباس خريد ليں.
يہ علم ميں رہے كہ ان كيٹلك بكوں اور ميگزين ميں لباس كے ڈيزائن كى نمائش كے ليے مردوں اور عورتوں كى تصاوير ہوتى ہيں، اور ان تصاوير ميں مردوں اور عورتوں كى ايسى تصاوير بھى ہوتى ہيں جن ميں صرف انڈر وير اور اندرونى لباس پہنا ہوتا ہے!! ( يعنى تقريبا ننگى تصاوير ہوتى ہيں ) اس كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا نمائش ميں عورت كسى دوسرى عورت كو شارٹ لباس يعنى داخلى لباس ميں ديكھ سكتى ہے، تا كہ وہ لباس خريدا جا سكے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ كيٹلك بك خريدنے كے متعلق ميرے سوال كا تفصيلى اور اطمنان بخش جواب ديں.
ليڈيز لباس كے ڈيزائن اور ماڈل لينے كے ليے ميگزين اور كيٹلك بك خريدنا
سوال: 91344
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مذكورہ كيٹلك بك اور ميگزين خريدنے جائز نہيں كيونكہ يہ ننگى اور فحش تصاوير پر مشتمل ہيں، جو نہ تو مرد كے ليے اور نہ ہى عورت كے ليے ديكھنى جائز ہيں.
اور يہ معلوم ہے كہ مرد كا مرد سے اور عورت كا عورت سے ناف سے ليكر گھٹنے تك ستر ہے، اور ان تصاوير ميں ستر ننگا ہوتا ہے جيسا كہ آپ نے ذكر بھى كيا ہے، يہ تو اس فتنہ و شر سے بھى بڑھ كر ہے جو اس كى بنا پر حاصل ہو گا، كيونكہ اسے مرد بھى ديكھيں گے اور عورتيں بھى، يا پھر بچے بھى.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
غير شرعى ڈيزائن كو چھوڑ كر اپنى شريعت كے موافق ڈيزائن حاصل كرنے كے ڈيزائن پر مشتمل ميگزين خريدنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
آپ كے ليے مختلف قسم كے ڈيزائن پر مشتمل تصاوير والے ميگزين خريدنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں فتنہ پايا جاتا ہے، اور پھر اس طرح كے نقصاندہ ميگزين كى ترويج ہو گى، بلكہ آپ كو وہى لباس كافى ہے جو آپ كے علاقے اور ملك و شہر كى عورتيں پہنتى ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 75 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
” رہا مسئلہ يہ كہ ميگزين اور اخبارات ميں جو گندى اور فحش تصاوير پائى جاتى ہيں ان كا خريدنا جائز نہيں، اور نہ ہى انہيں گھر ميں داخل كرنا جائز ہے؛ كيونكہ اس ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں جو يادداشت جيسى مصلحت ( اگر يہ بھى ہو تو پھر ) كو مٹا كر ركھ ديتى ہيں، وگرنہ حرمت ميں يہ چيز تو اور بھى بڑھ كر ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں كے درميان كچھ مشتبہات ہيں جنہيں اكثر لوگ نہيں جانتے، اس ليے جو كوئى بھى متشابہ اشياء سے اجتناب كرے تو اس نے اپنى عزت بھى محفوظ كر لى اور اپنا دين بھى محفوظ كر ليا، اور جو متشابہات ميں پڑ گيا تو وہ بالكل اس چرواہے كى طرح ہے جو اپنى بكرياں اور جانور كسى اور كى چراگاہ كے ارد گرد چرا رہا ہو تو خدشہ ہے كہ كہيں اس كے جانور اس چراگاہ ميں نہ گھس جائيں، خبردار ہر بادشاہ كى ايك اپنى مخصوص جگہ ہوتى ہے اور اللہ تعالى كى مقرر كردہ مخصوص جگہ ہے اور اس يہ اس كى حرام كردہ اشياء ہيں ”
اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس ميں تجھے شك و شبہ ہواسے ترك كر كے بغير شك والى كو اختيار كرو ”
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نيكى كے متعلق دريافت كرنے والے ايك شخص كو فرمايا:
” نيكى وہ ہے جس پر نفس اور دل مطمئن ہو، اور گناہ وہ ہے جو نفس ميں كھٹكے، اور سينے ميں اس كے متعلق تردد ہو، اور چاہے لوگ تجھے اس كا فتوى بھى ديں، يا تجھ سے دريافت كريں ”
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 468 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے تصاوير پر مشتمل كتب خريدنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
” تصاوير پر مشتمل كتب كو دو قسموں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:
ايك وہ قسم جو تصاوير كے ليے جارى كى گئى ہو، مثلا جسے اب البردۃ ھذہ ” ميگزين اسے خريدنا اور ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس كا آخرى اور پہلا مقصد تصويريں ہى ہے.
دوسرى قسم وہ ہے جس كا مقصد تصاوير نہيں، بلكہ اس سے فائدہ مقصود ہے، ليكن بعض اوقات وہ تصوير پر مشتمل ہو سكتى ہے تو اسے ركھنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اس سے بچنا مشكل ہے، اور اس سارى كو مٹانا اور چہروں پر سياہى ملنا يہ بھى مشقت كا باعث ہے، انہيں فروخت كرنا جائز ہے؛ كيونكہ جب ان كا استعمال جائز ہوا تو انہيں فروخت كرنا بھى جائز ہوا ” انتہى.
ماخوذ از: لقاء الباب المقتوح ( 21 / 115 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” ميں آپ كو متنبہ كرتا ہوں كہ پرفتن تصاوير اور گمراہ قسم كى باتيں اور غلط قسم كے فيشن و ڈيزائن تمہارے گھروں ميں نہ گھس جائيں، اگر ايسا ہو گيا تو تمہارے اہل و عيال تمہارے ہاتھوں سے نكل كر ہلاك ہو جائينگے، اور ان كے اخلاق و عادات گر جائينگے ان ميگزين اور اخبارات ميں جو كچھ بھى پيش كيا جاتا ہے يہ ميگزين ركھنے اور لانے والوں پر اثر انداز ہونگے، اور ان ميں جو غلط افكار و تہذيب پائى جاتى ہے وہ تمہارے اندر پھيل جائيگى.
مومنوں اس طرح كے ميگزين اور اخبارات و جرائد كا گھر ميں موجود ہونا گھروں ميں فرشتوں كو داخل ہونے سے روك ديتا ہے؛ كيونكہ جس گھر ميں تصوير ہو وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے، جس گھر ميں فرشتے ہى داخل نہ ہوں اس گھر ميں كے بارہ ميں آپ كا خيال كيا ہوگا.
اس ليے اس طرح كے ميگزين اور رسالے ركھنے ان كى خريدارى كرنا اور انہيں فروخت كرنا، اور اس كى كمائى حرام ہے، اور بطور ہديہ بھى اس طرح كے ميگزين اور رسالے قبول كرنے حرام ہيں، اور جو كوئى بھى مسلمانوں ميں اسے نشر كرنے كا باعث بنتى ہو وہ بھى حرام ہے؛ كيونكہ يہ گناہ و برائى ميں معاونت ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو .
اللہ كے بندو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے تم اس طرح كے رسالے اور ميگزين اپنے ہاتھ ميں مت ركھو اور ان كے قريب بھى نہ جاؤ بلكہ انہيں جلا كر راكھ كر دو، كيونكہ جو كچھ تم سن چكے ہو اس سے تم پر حجت قائم ہو چكى ہے، ان ميگزين اور رسالے اور اخبارات كو جلا دو، انہيں ضائع كر دو، اور اپنے پاس مت ركھو، نہ تو اپنے بچوں كے پاس رہنے دو اور نہ ہى اپنى بچيوں كے پاس رہنے دو.
اور اس طرح كے ميگزين اور رسالے اور اخبارات كى خريدارى ميں اپنا مال مت خرچ كرو، اور نہ ہى اس ميں شراكت كرو، كيونكہ اس كى بہت سارى خرابياں ہيں؛ ان خرابيوں ميں مال ضائع كرنا بھى شامل ہے، جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے لوگوں كى دنياوى اور دينى ضروريات پورى كرنے كا سبب بنايا ہے، اور پھر جس چيز ميں كوئى فائدہ نہ ہو اس ميں مال صرف كرنا، يا كسى نقصان اور ضرر والى چيز ميں مال صرف كرنا مال ضائع كرنے كے مترادف ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا. انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 281 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب