ميں حسب استطاعت حرام كام كرنے سے اجنتاب كى كوشش كرتا ہوں ليكن بعض اوقات بيدار ہوتا ہوں تو احتلام كى بنا پر لباس گيلا ہوتا ہے، اس كا حكم كيا ہے، آيا يہ حرام تو نہيں ؟
اور اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كا كيا طريقہ ہے، كيونكہ يہ چيز بہت ہى شرمندگى كا باعث ہے ؟
احتلام طبعى چيز ہے اس پر انسان كا مواخذہ نہيں ہو گا
سوال: 9208
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالى نے انسان ميں شہوت كا مادہ ركھا ہے، اور اپنے بندوں كو حكم ديا ہے كہ اگر ان ميں نكاح كى استطاعت ہے تو وہ اس طاقت كو صحيح طرح استعمال كريں، تا كہ دنياوى مصلحت پورى ہو اور خاندان بن سكيں، اور معاشرہ كو تقويت حاصل ہو، اور اللہ تعالى كى سنت كے مطابق دنيا كى آبادى ہو.
پھر اللہ تعالى نے جو بندوں ميں يہ طاقت ( شہوت ) جمع كى ہے وہ زيادہ ہوتو اسے نكالنے كے ليے احتلام كے ذريعہ خارج كيا ہے، اور يہ دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت ميں قوت خارج كرنے كا سبب ہے، جس ميں انسان كا اپنا كوئى دخل نہيں، بلكہ يہ بشرى اور انسانى طبعيت كا تقاضا ہے، اس پر انسان كا مواخذہ نہيں كيا جائيگا، اس كى دليل يہ ہے كہ:
1 – على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور مجنون اور پاگل سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1343 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3032 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3378 ).
اسى طرح يہ حديث ترمذى كے علاوہ باقى سنن ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے.
اور اس حديث كو امام ترمذى نے اور امام نووى نے شرح مسلم ( 8 / 14 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور سوئے ہوئے شخص كو كوئى پتہ نہيں ہوتا كہ وہ كيا كر رہا ہے، چنانچہ وہ بھى مرفوع القلم ميں شامل ہوتا ہے، اور خواب نيند ميں آتى ہے اس ليے خواب ان اشياء ميں شامل ہو گى جو معاف ہيں.
2 – بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے احتلاف كو تو بلوغت كى علامت قرار ديا ہے، اسى ليے فرمان بارى تعالى ہے:
اور جب تم ميں سے بچے بلوغت كو پہنچ جائيں تو وہ اجازت طلب كريں .. النور ( 59 ).
اس ليے اگر احتلام حرام ہوتا تو اللہ تعالى اسے بلوغت كى علامت قرار نہ ديتا.
3 – زينب بنت ام سلمہ بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، چنانچہ كيا اگر عورت كو احتلام ہو تو وہ بھى غسل كرے گى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں جب وہ پانى ديكھے، تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى نے اپنا چہرہ ڈھانپ ليا اور كہنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا عورت كو بھى احتلام ہوتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
جى ہاں، تيرے ہاتھ خاك آلودہ ہوں، تو پھر اس كى بچہ اس كى مشابہت كيسے اختيار كرتا ہے ؟ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
4 – عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنا لباس گيلا پائے اور اسے احتلام ہونا ياد نہ ہو.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا كہ وہ غسل كرے.
اور ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جسے احتلام تو ہوا ہو ليكن وہ لباس گيا نہ پائے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس پر غسل نہيں ہے.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں، عورتيں بھى مردوں كى طرح ہى ہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 236 ).
عجلونى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
ابن قطان رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے صحيح ہے.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
احتلام ايك طبعى چيز ہے، اور اس سے چھٹكارا اور خلاصى ممكن نہيں اور جس حد تك آپ نے محسوس كيا يہ كوئى شرمندگى والا معاملہ نہيں ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب