میرے والد نے ایک کافر شخص سے کچھ مشینیں خریدیں تھیں، انہیں معلوم تھا کہ یہ چوری کی ہوئی مشینیں ہیں، تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ اور یہ بھی بتلائیں کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ اس کے بعد جو مال میں نے والد صاحب سے لے کر اپنی تجارت میں لگایا اس کا کیا حکم ہے؟
چوری کا مال خریدنے کا حکم، اور کیا اس کا حکم غیر ِخریدار پر بھی لاگو ہو گا؟
سوال: 93031
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسروقہ مال خریدنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ کسی کافر کا ہی چوری کیوں نہ ہوا ہو؛ کیونکہ یہ ایسا حرام مال ہے جو اپنی ذات میں حرام ہے، اور جو مال محرم لعینہٖ ہو تو اس کا کوئی مالک نہیں بن سکتا چاہے مالک بننے کا طریقہ کار شرعاً درست ہو، مثلاً: اسے خریدنا، یا تحفہ میں لینا یا وراثت میں وصول کرنا۔
اور اگر کسی کو پتہ چل جائے کہ جو چیز وہ خریدنے جا رہا ہے چوری شدہ مال ہے، تو اس پر لازم ہے کہ چور کو سمجھائے، اور چوری سے توبہ کرنے کی نصیحت کرے، اور چوری شدہ مال ان کے مالکوں تک پہنچائے، لہذا اگر چوری شدہ چیز کے مالکوں کا علم ہو اور ان تک چیز پہنچانا ممکن بھی ہو تو مالکوں تک ان کا سامان پہنچائے، یا انہیں ان کے سامان کی جگہ بتلا دے کہ کہا پڑا ہے، یا متعلقہ ذمہ دار اداروں کو مطلع کر دے۔
اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے ہوئے چوری شدہ مال خرید لیتا ہے تو اسے خریداری پر گناہ ہو گا، اب اس کی توبہ کی قبولیت تبھی ہو گی جب چوری شدہ مال ان کے مالکوں کو واپس کرے، اور اپنی قیمت فروخت کنندہ سے واپس کرنے کا مطالبہ کرے۔
چور سے چوری شدہ سامان خریدنے پر گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت ہوتی ہے، چور کو مزید حوصلہ ملتا ہے کہ وہ چوری کرتا رہے، اس طرح برائی روکنے کی بجائے انسان برائی کی ترویج میں ملوث ہو جاتا ہے۔ پھر بیع کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ بائع مبیع کا مالک ہو، اگر چور کسی چیز کو فروخت کر رہا ہے تو چور اس چیز کا مالک نہیں ہے، لہذا اس وجہ سے چور کے ساتھ بیع کا معاہدہ ہی درست نہیں ہے باطل ہے۔
مندرجہ بالا امور کے متعلق ذیل میں اہل علم کے فتاوی بیان کرتے ہیں:
1-شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غصب شدہ اموال اور ایسے معاہدے کے ذریعے قبضے میں لیے گئے اموال جن کے ذریعے وہ مباح نہیں ہو جاتے، اگر کسی مسلمان کو ان کے بارے میں علم ہو جائے تو ان سے بچے۔ چنانچہ اگر مجھے علم ہو جائے کہ فلاں نے یہ مال چرایا ہے، یا اس نے امانت میں خیانت کے ذریعے حاصل کیا ہے، یا کسی سے ناحق زبردستی چھین کر لایا اور غصب کیا ہے، تو میرے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میں اسے لوں، نہ تو تحفے کے طور پر لے سکتا ہوں، نہ ہی عوض دے کر لے سکتا ہوں، نہ ہی اجرت کی مد میں وصول کر سکتا ہوں، اور نہ ہی مبیع کی قیمت کے طور پر، نہ ہی قرض چکانے کے طور پر ؛ کیونکہ یہ بعینہٖ مظلوم شخص کا مال ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى " ( 29 / 323 )
2-شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اگر ان -تاتاریوں -کے پاس یا کسی اور کے پاس موجود مال کے بارے میں پتہ چل جائے کہ یہ کسی معصوم فرد کا غصب شدہ مال ہے، تو پھر اسے اپنی ملکیت میں شامل کرنے کے لیے خریدنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس لیے خریدا جائے کہ وہ مال تاتاریوں سے لے کر اس کے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے، چنانچہ ممکن ہو تو اس کے مالکوں تک پہنچایا جائے ،لیکن اگر پہنچانا ممکن نہ ہو تو اسے لے کر مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کر دیا جائے ، تو اسے خریدنا جائز ہو گا۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 29 / 276 )
3- دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ پیش کیا گیا سامان چوری شدہ ہے یا غصب شدہ ہے، یا جو شخص اس چیز کو فروخت کر رہا ہے وہ خود اس کا شرعاً مالک نہیں ہے، اور نہ ہی اس چیز کو فروخت کرنے کا باقاعدہ نمائندہ ہے، تو پھر اس انسان کے لیے وہ چیز خریدنا حرام ہے؛ کیونکہ خریداری کرنے سے گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون ہو گا، اور اصلی مالک کی چیز مالک سے دور ہو جائے گی، نیز اس میں لوگوں پر ظلم کی صورت بھی ہے، برائی کو تسلیم کرنا بھی ہے، اور چور کے ساتھ گناہ کے کام میں شراکت بھی ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا تو فرمان ہے کہ: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔ [المائدہ: 2]
اس بنا پر: جسے معلوم ہو جائے کہ مال چوری شدہ ہے، یا غصب کیا ہوا ہے، وہ چور کو اچھے انداز اور پیار سے سمجھائے، اور چوری سے اسے روکے، اگر تو چوری سے باز آنے کا وعدہ کرے تو ٹھیک ورنہ متعلقہ سرکاری اداروں کو اطلاع کرے، تا کہ اسے اپنے کیے کی مناسب سزا ملے، اور اصلی مالک تک اس کی چیز واپس پہنچائی جائے، یہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون ہے؛ نیز یہ ظالم کو ظلم سے روکنے میں شامل ہوتا ہے، اور اس طرح مظلوم کی مدد بھی ہوتی ہے۔
اسی لیے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ثابت شدہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی مدد تو کرتے ہیں، ظالم کی مدد کیسے کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ظالم کے ہاتھوں سے اسے پکڑو) اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے، اسی طرح مسند احمد وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! میں مظلوم کی تو مدد کرتا ہوں ، لیکن اگر میرا بھائی ہی ظالم ہو تو میں اس کی مدد کیسے کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اسے ظلم سے روکو؛ یہی اس کی مدد ہے۔)
اس بنا پر: ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم اور زیادتی کرنے سے روکا جائے، جبکہ مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کا حق واپس لوٹانے کے لیے اس کے ساتھ کوشش کی جائے، اور ظالم کو اس پر ظلم کرنے کا موقع نہ دیا جائے، یہ فرض کفایہ ہے، چنانچہ اگر ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے کوئی سرکاری اہلکار نہ ہو ، یا ظالم سے بڑا طاقتور نہ ہو جو ظالم اور اللہ کے نافرمان کے ہاتھ پکڑے اور اسے ظلم و جرم سے باز رکھے: تو جو بھی اس وقت وہاں موجود ہے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی طاقت اور بساط کے مطابق ظلم سے باز رکھے، نرمی اور پیار سے بات کرے، ان شاء اللہ اسے اس عمل کا اجر ضرور ملے گا۔" ختم شد
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد العزيز آل الشيخ ، الشيخ صالح الفوزان ، الشيخ بكر أبو زيد ۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 13 / 82 ، 83 )
4- الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
مجھے مال دکھایا گیا تو مجھے پتہ چل گیا کہ یہ مال چوری کا ہے، لیکن جس نے مجھے سامان دکھایا تھا وہ خود چور نہیں تھا، بلکہ اس نے جس سے خریدا تھا ، اس نے کسی چور سے خریدا تھا، تو اب اگر میں اسے خریدتا ہوں تو کیا مجھ پر اس کا گناہ ہو گا؟ واضح رہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس کا اصل مالک کون ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"شرعی دلائل کی رو سے جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ: جب آپ کو علم ہو گیا کہ یہ چیز چوری کی ہے ، یا آپ کو غالب گمان ہو گیا کہ مال چوری شدہ ہے تو آپ کے لیے یہ چیز خریدنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ترجمہ: گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو۔ [المائدہ: 2]؛ ویسے بھی آپ کو علم ہے یا غالب گمان ہے کہ فروخت کنندہ مبیع کا شرعاً مالک نہیں ہے، نہ ہی اسے فروخت کرنے کی شرعاً اجازت حاصل ہے ، تو پھر آپ کیسے اس شخص کی ظلم میں معاونت کر رہے ہیں؟! کہ آپ کسی کا مال بغیر حق کے لے رہے ہیں۔ ہاں اس چیز کو بچانے کے لیے خریدنا جائز ہے کہ خرید کر اس کے اصلی مالک تک پہنچایا جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کہ اگر سرکاری طور پر چیز واپس لے کر ظالم کو سزا دینا ممکن نہ ہو تو خرید کر مظلوم تک پہنچائی جائے۔ لیکن اگر سرکاری طور پر اس چیز کو واپس لینا ممکن ہو اور ظالم کو سزا بھی دی جا سکتی ہو تو پھر بزورِ طاقت اس سے چیز واپس لیں اور ظالم کو شرعی سزا دلوائیں، مشہور اور معروف دلائل کی روشنی میں یہی واجب ہے، جیسے کہ ایک حدیث بھی ہے کہ: (تم اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔۔۔)" ختم شد
" فتاوى الشيخ ابن باز " ( 19 / 91 ، 92 )
دوم:
آپ نے اپنے والد سے پیسے لیے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ جس شخص کی دولت میں حلال و حرام دونوں طرح کی آمدن ہو، تو اس کے ساتھ لین دین، تحائف کا تبادلہ اور قرض وغیرہ بھی لیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم یہودیوں کے ساتھ لین دین کیا کرتے تھے حالانکہ یہودی سود خور کے ساتھ ساتھ حرام خور بھی تھے۔
لیکن اگر جو چیز آپ والد سے لے رہے ہیں وہی چیز چوری کی تھی تو پھر آپ کے لیے اور آپ کے والد کے لیے اسے اپنی ملکیت میں رکھنا جائز نہیں ہے۔
آخری بات: آپ اپنے والد صاحب کو نصیحت کریں کہ حلال روزی تلاش کریں، حرام سے بچیں؛ کیونکہ جسم کا کوئی بھی حصہ حرام سے پروان چڑھا تو وہ حصہ آگ کا زیادہ حق دار ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اپنی طرف سے حلال روزی عطا فرمائے، حرام سے بچا کر حلال کے ذریعے بے نیازی پید اکر دے، اور ہمیشہ اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ بنائے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب