تقريبا اڑھائى برس قبل ميرى شادى ہوئى ہے ليكن ميرا خاوند تقريبا ہر تين يا پانچ ماہ ميں ہى ميرے قريب آتا ہے اور بيمارى يا پھر جادو كا بہانہ بناتا ہے، يا پھر كبھى مالى حالت صحيح نہيں ہے، اور ميرے ساتھ بالكل محبت و مودت نہيں كرتا، جب بھى ميں نے بات كى اس كے پاس عذر اور بہانے تيار ہوتے ہيں.
يہ علم ميں رہے كہ وہ جو كچھ كہتا ہے اس ميں سے اسے كوئى بھى مشكل درپيش نہيں، حتى كہ ميں نے اس كے گھر والوں كو بھى اس كے متعلق بتايا ہے، ليكن انہوں نے بھى اس سے كلام كى اور كوئى فائدہ نہيں ہوا، اب وہ مجھ پر حمل كے علاج كا دباؤ ڈالتا رہتا ہے.
تقريبا اڑھائى برس قبل ميرى شادى ہوئى ہے ليكن ميرا خاوند تقريبا ہر تين يا پانچ ماہ ميں ہى ميرے قريب آتا ہے اور بيمارى يا پھر جادو كا بہانہ بناتا ہے، يا پھر كبھى مالى حالت صحيح نہيں ہے، اور ميرے ساتھ بالكل محبت و مودت نہيں كرتا، جب بھى ميں نے بات كى اس كے پاس عذر اور بہانے تيار ہوتے ہيں.
يہ علم ميں رہے كہ وہ جو كچھ كہتا ہے اس ميں سے اسے كوئى بھى مشكل درپيش نہيں، حتى كہ ميں نے اس كے گھر والوں كو بھى اس كے متعلق بتايا ہے، ليكن انہوں نے بھى اس سے كلام كى اور كوئى فائدہ نہيں ہوا، اب وہ مجھ پر حمل كے علاج كا دباؤ ڈالتا رہتا ہے.
مجھے كچھ سمجھ نہيں آ رہى كہ يہ كيسے ہوگا، ميں بہت تھك چكى ہوں، اور كچھ علم نہيں كہ كيا كروں، اگر ميرے ميكے والوں كا اس كا علم ہوگيا تو پھر طلاق يقينى ہے اور يہ بھى علم ميں رہے كہ ہم كئى ايك عالم دين كے پاس بھى گئے ہيں، يہ سب متفق ہيں كہ كوئى ايسا ہے جس كى ہميں نظر لگى ہے، ليكن ہميں كوئى فائدہ نہيں ہوا.
ميں صراحت كے ساتھ كہتى ہوں كہ مجھے خدشہ ہے كہ كہيں فحاشى كا ارتكاب نہ كر بيٹھوں، برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں كہ مجھ پر كيا واجب ہوتا ہے، اور طلاق كى حالت ميں ميرے حقوق كيا ہونگے ؟
مجھے كچھ سمجھ نہيں آ رہى كہ يہ كيسے ہوگا، ميں بہت تھك چكى ہوں، اور كچھ علم نہيں كہ كيا كروں، اگر ميرے ميكے والوں كا اس كا علم ہوگيا تو پھر طلاق يقينى ہے اور يہ بھى علم ميں رہے كہ ہم كئى ايك عالم دين كے پاس بھى گئے ہيں، يہ سب متفق ہيں كہ كوئى ايسا ہے جس كى ہميں نظر لگى ہے، ليكن ہميں كوئى فائدہ نہيں ہوا.
ميں صراحت كے ساتھ كہتى ہوں كہ مجھے خدشہ ہے كہ كہيں فحاشى كا ارتكاب نہ كر بيٹھوں، برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں كہ مجھ پر كيا واجب ہوتا ہے، اور طلاق كى حالت ميں ميرے حقوق كيا ہونگے ؟
جسمانى اور نفسياتى مرض كى بنا پر خاوند كا بيوى كے حقوق ميں كوتاہى برتنا
سوال: 93230
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند پر واجب كيا ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19).
اور حسن معاشرت خاوند اور بيوى كے مابين مشتركہ حقوق ميں شامل ہوتى ہے، اس ليے خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك پر واجب ہے كہ وہ اپنے زندگى كے ساتھ كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرے.
اور پھر خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كے اپنے شريك حيات پر كچھ حقوق ہيں، خاوند اور بيوى كے ايك دوسرے پر حقوق كے متعلق ہم تفصيلى بحث سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب ميں كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
بيوى كے اپنے خاوند پر جو حقوق ہيں ان ميں يہ بھى شامل ہے كہ بيوى سے وطئ كر كے اسے عفت و عصمت فراہم كى جائے، يہ حق قدرت ركھنے والے خاوند پر واجب ہے، جمہور علماء كرام اسے واجب قرار ديتے ہيں.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” بيوى كے خاوند پر حقوق ميں يہ بھى شامل ہے كہ خاوند اپنى بيوى كى عفت و عصمت كے ليے اس سے وطئ كرے، جمہور فقھاء كرام ـ حنفيہ مالكيہ اور حنابلہ ـ كے ہاں خاوند كا بيوى سے وطئ كرنا واجب ہے ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 127 ).
علماء كرام نے اس حد ميں اختلاف كيا ہے كہ كتنے عرصہ ميں خاوند پر بيوى كے ساتھ جماع كرنا واجب ہوگا، اس ميں صحيح قول يہى ہے كہ بيوى كى حاجت و ضرورت اور خاوند كى استطاعت و طاقت كے تابع ہوگا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى مرد اپنى بيوى سے ايك يا دو ماہ تك ہم بسترى نہ كرے تو كيا اسے كوئى گناہ ہوگا يا نہيں ؟
اور كيا خاوند سے اس كا مطالبہ كيا جائيگا ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
” مرد پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ اچھے طريقہ سے وطئ كرے، اور يہ بيوى كا خاوند پر تاكيدى حق ہے، بلكہ اسے كھلانے سے بھى زيادہ عظيم ہے، وطئ كے وجوب كے متعلق كہا جاتا ہے كہ:
ہر چار ماہ ميں ايك بار بيوى سے جماع كرنا واجب ہے اور ايك قول يہ ہے كہ بيوى كى ضرورت اور خاوند كى استطاعت و قدرت كے مطابق ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اسے بقدر ضرورت اور حاجت اپنى استطاعت كے مطابق كھانا كھلاتا ہے، دونوں قولوں ميں صحيح يہى قول ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 271 ).
ہو سكتا ہے كہ آپ كے خاوند كو كوئى نفسياتى يا پھر جسمانى بيمارى لاحق ہوئى ہو جس كى بنا پر اسے جماع كرنے سے نفرت پيدا ہوگئى ہو، يا پھر خواہش جاتى رہى ہو، اور آپ كے پاس اس كے نہ ہونے كا يقين نہيں ہے، اور خاص كر جب آپ كہہ رہى ہيں كہ جن علماء نے آپ كے حالت كو جانا ہے وہ سب يہى كہتے ہيں كہ تمہيں كسى كى نظر لگى ہے.
اس ليے يہ كوئى بعيد نہيں كہ نظر بد كى بنا پر ہى آپ كے خاوند ميں يہ تبديلى آئى ہو.
ڈاكٹر عبد اللہ بن سدحان حفظہ اللہ سے جو كہ شرعى دم كرنے كے ماہر ہيں، اور پى ايچ ڈى ميں انہوں نے اسى موضوع پر كتاب بھى لكھى ہے ” كيا نظر بد جسمانى يا مادى يا معاشرتى امراض كا باعث بنتى ہے ” كسى نے درج ذيل سوال كيا:
تو انہوں نے جواب ديا:
جى ہاں، نظر بد بہت سارے اعضاء كے امراض كى عدم شفا كا باعث بنتى ہے، بلكہ اسے بڑھا ديتى ہے، اور اسى طرح مادى اور ازدواجى اور قطع رحمى كى مشكلات اور بہت سارے مصائب كا باعث بنتى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ميرى امت كے اكثر لوگ اللہ كى قضاء كے بعد نظر بد سے مريں گے “
تو پھر موت سے كم تر مصائب ميں تو نظر بد بالاولى لاحق ہوتى ہے.
ماخوذ از: مجلۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 2018 ) 15 شوال 1426 ھـ الموافق 17 نومبر 2005 ميلادى.
نيك و صالح بيوى پر واجب ہے كہ وہ اس طرح كى حالت ميں اپنے خاوند كا ساتھ دے اور اس كا پہلو بنے كيونكہ اسے اس وقت ايسے شخص كى ضرورت ہے جو اس كا ساتھ دے، اور اس كے علاج معالجہ ميں اس كى معاونت كرے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے شفايابى نصيب كرے.
اور جو كچھ اسے ہوا ہے اگر اس كا سبب مادى حالات اور معاشرتى زندگى ہے تو آپ خوبصورتى و جمال اختيار كر كے اور اس سے محبت و مودت اور نرمى كر كے اس كا دل جيت سكتى ہيں، كيونكہ آپ ہى اس كا سكون ہيں، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين مودت و الفت اور رحمت بنائى ہے جس كے ذريعہ خاوند كے دل كو جيتنا بہت ہى آسان ہے، اور حالات كے جس دباؤ كا وہ شكار ہے اس ميں اس طرح كمى كى جاسكتى ہے.
اور آپ يہ بھى معلوم كر ليں كہ مرد عورت كى طرح نہيں ہے، كيونكہ عورت تو اپنے خاوند جنسى ضرورت ہر وقت اور ہر حالت ميں پورى كر سكتى ہے، الا يہ كہ عورت بيمار ہو يا پھر حيض يا نفاس كى حالت ميں.
ليكن مرد اس كى طاقت نہيں ركھتا كہ وہ عورت كى ہر وقت جنسى ضرورت پورى كرے، صرف اسى صورت ميں پورى كر سكتا ہے جب وہ چست و اور طاقت ركھتا ہو، اور پھر اس ميں جماع كرنے كى رغبت بھى پائى جائے.
اس ليے شريعت مطہرہ نے ايك سے زائد بيويوں والے شخص پر جماع ميں عدل كرنا واجب نہيں كيا؛ كيونكہ يہ تو چستى اور رغبت اور قدرت كے تابع ہے، اسى ليے جماع سے انكار كرنے ميں بيوى كے ليے وعيد آئى ہے، ليكن مرد كے ليے نہيں.
رہا آپ كا يہ كہنا كہ: آپ فحاشى ميں پڑنے كا خوف ركھتى ہيں، اس ميں آپ سے گزارش ہے كہ آپ صبر و تحمل سے كام ليں، اور آپ اپنے خاوند كى معاونت كريں حتى كہ اللہ تعالى اسے شفايابى نصيب كرے، ليكن اگر آپ صبر نہيں كر سكتيں تو پھر آپ كو طلاق طلب كرنے كا حق ہے.
اور آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنا علاج جلد كرائے اور اس ميں اسے كوئى تردد نہيں كرنا چاہيے يا پھر علاج ميں سستى و كاہلى نہ كرے، كيونكہ ـ آپ كى كلام كے مطابق ـ وہ اپنى بيوى كے حقوق ميں كوتاہى كا مرتكب ہو رہا ہے، اور بيوى كو عفت كا حق حاصل ہے، اور يہ عفت اسى صورت ميں حاصل ہو سكتى ہے جب خاوند اس كى جنسى خواہش پورى كرے، لہذا اگر وہ اس كى قدرت اور طاقت ركھتا ہے تو اسے يہ حق پورا كرنا چاہيے، وگرنہ اسے طلاق دے كر اس كو اچھى طرح چھوڑ دے، اگر بيوى اپنے خاوند كے مرض پر صبر نہيں كر سكتى تو وہ طلاق دے دے.
سوال نمبر ( 11359 ) كے جواب ميں ہم نظر بد سے بچنے كا طريقہ بيان كر چكے ہيں، اور اس كے علاج كا طريقہ بھى بيان ہوا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات