0 / 0

بغير ڈيوٹى كيے تنخواہ لينا

سوال: 93579

ميرى كنيت ام …. ہے ميں نے اپنے گھر كے قريب ہى ايك سكول ميں بطور مدرسہ ملازمت كرتى رہى ہوں، پھر كچھ عرصہ بعد مجھے گھر سے دور ايك ايسے سكول ميں ٹرانسفر كر ديا گيا جہاں مرد و عورت كا اختلاط ہے، ليكن ميں نے وہاں جانے سے انكار كر ديا، اور ميرى تنخواہ جارى ہے اسے نہيں روكا گيا، بنك ميں موجود ميرى اس تنخواہ كا حكم كيا ہے ؟

كيا ميں يہ رقم اپنے خاوند كو دے سكتى ہوں ـ يہ علم ميں رہے كہ امن و امان كے اسباب كے باعث ميرا خاوند ملازمت سے موقوف ہے؛ كيونكہ اس كا بھائى ايك اسلامى تنظيم سے وابستہ تھا، يہ علم ميں رہے كہ ہميں اس وقت رقم كى بہت شديد ضرورت ہے، اور جيسا كہ معروف ہے كہ تنخواہ كى يہ رقم حكومت كو واپس نہيں جا سكتى، بلكہ خزانچى ہى ركھ لينگے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہم آپ كے شكر گزار ہيں كہ آپ اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء پر غيرت ركھتى ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ جيسى مسلمان عورتيں اور زيادہ كرے، اور آپ كو مرد و عورت سے مختلط سكول ميں ملازمت نہ كرنے پر اجروثواب عطا فرمائے؛ كيونكہ وہاں ملازمت كرنا شريعت اسلاميہ كے خلاف اور شرعى حدود سے تجاوز ہے، اور معاصى و گناہ ميں مبتلا ہونا ہے.

رہا مسئلہ يہ كہ جو تنخواہ آپ كى جارى ہو چكى ہے اور آپ نے ڈيوٹى ادا نہيں كى: اس كے متعلق آپ كو علم ہونا چاہيے كہ اس كى دو وجوہات ہيں:

يا تو انہيں اس كا علم ہے، اور وہ جانتے ہيں حتى كہ يہ معاملہ سدھر جائے.

يا پھر انہيں اس كا علم نہيں اور وہ جانتے تك نہيں ہيں.

اگر تو پہلى صورت ہے تو پھر آپ كے ليے وہ تنخواہ حلال ہے، اس كے جائز ہونے ميں كوئى اشكال نہيں.

اور اگر دوسرى صورت ہے تو آپ كے ليے يہ تنخواہ لينى جائز نہيں نہ تو آپ خود لے سكتى ہيں، اور نہ ہى آپ اپنے خاوند كو دے سكتى ہيں، بلكہ آپ محكمہ تعليم كو وہ تنخواہ واپس كر ديں.

اور يہ علم ميں ركھيں كہ آپ اور سركارى محكمہ جس نے آپ كو ملازمت دى ہے كے مابين ايك معاہدہ ہوا ہے، جس كا آپ كو التزام كرنا ضرورى ہے، جس ميں شرعى كوئى مخالفت نہ ہوتى ہو، اور معروف معاہدہ جات كا تقاضہ يہ ہے كہ ملازم اپنے كام كے عوض ميں تنخواہ ليتا ہے، اور اگر وہ كام نہيں كرتا يا پھر كام پر نہ جائے تو اس كى تنخواہ رك جاتى ہے، ليكن اگر اس كا سبب محكمہ خود ہو يا وزارت يا پھر كام والے كى جانب سے كوئى سبب ہو، اور معاہدہ كى شق ميں يہ بات بيان كرنا ممكن ہے كہ معاملات سدھرنے تك تنخواہ جارى رہے گى، اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر تنخواہ لينے آپ كا حق ہے اور اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور ہو سكتا ہے محكمہ اور آپ كے مابين ملازمت كے معاہدہ ميں يہ شق بھى ہو مثلا: اس شق كا تقاضا يہ ہو كہ آپ اسى جگہ پر كام كريں جہاں وہ مناسب سمجھيں، اور كام نہ كرنے كى حالت ميں آپ كو تنخواہ جارى نہيں ہو گى، اس ليے اگر يہ حالت ہو تو پھر آپ كے ليے تنخواہ لينى حلال نہيں، اور آپ كو اس كا اختيار ہے كہ آپ تدريس كے ليے شرعى جگہ پر رہنے كى كوشش كريں، يا پھر ملازمت ترك كر ديں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

سركارى محكموں ميں بعض ملازمين كو ديكھا گيا ہے كہ وہ ڈيوٹى سے نصف گھنٹہ ليٹ آتے ہيں، يا پھر ڈيوٹى ختم ہونے سے نصف گھنٹہ قبل چلے جاتے ہيں، اور بعض اوقات ايك گھنٹہ يا اس سے بھى زيادہ ليٹ ہوتے ہيں تو اس كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

” ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ جواب كا محتاج نہيں؛ كيونكہ معاوضہ كام كے عوض ميں ہوتا ہے، تو جس طرح ملازم يہ چاہتا ہے كہ گورنمنٹ اس كى تنخواہ سے كچھ كمى نہ كرے، اسى طرح گورنمنٹ كے حق ميں بھى كمى نہيں كرنى چاہيے، اس ليے كسى بھى انسان كے ليے جائز نہيں كہ وہ ڈيوٹى كے مقررہ وقت سے تاخير كرے، اور نہ ہى ڈيوٹى ختم ہونے سے پہلے جائے.

سائل كہتا ہے:

ليكن بعض يہ دليل پيش كرتے ہيں اس وقت اصل ميں كوئى كام ہوتا ہى نہيں، كيونكہ كام بہت تھوڑا ہے ؟

شيخ كا كہنا ہے:

مہم يہ ہے كہ آپ كى ڈيوٹى وقت كے ساتھ مربوط ہے نہ كہ كام كے ساتھ، يعنى آپ سے يہ كہا گيا ہے كہ: آپ نے اس وقت سے ليكر اس وقت تك ڈيوٹى دينى ہے جس كى تنخواہ اتنى ہو گى، چاہے اس ميں كام ہو يا نہ ہو، اس ليے جب تنخواہ وقت كے ساتھ مربوط ہو تو پھر اس وقت كو پورا كرنا ضرورى ہے، يعنى وہ ڈيوٹى وقت پورا كرنا ہوگا، وگرنہ جس ميں حاضر ہى نہيں ہوئے اس كا باطل كھائينگے .

ديكھيں: الباب المفتوح ( 9 ) سوال نمبر ( 3 ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:

ميں سركارى ملازم ہوں، بعض اوقات مجھے اضافى كام كرنا پڑتا ہے، جس محكمہ ميں ملازم ہوں اس كى جانب سے مجھے اور ميرے كچھ ساتھيوں كو پنتاليس يوم تك ڈيوٹى كے بعد بھى كام كرنے كا كہا گيا، ميں اپنے ساتھيوں كے ساتھ ڈيوٹى پر حاضر ہونے پر حريص تھا، ليكن انہوں نے مجھے بتايا بھى نہيں، اور جب ميں نے ان ميں سے ايك سے دريافت كيا تو اس نے مجھے كہا كہ ابھى آپ كى بارى نہيں آئى، حتى كہ وہ مدت ختم ہو گئى اور محكمہ كى جانب سے ميرى اور ميرے ساتھيوں كى اضافى تنخواہ بھى آ گئى، ميں اس معاملہ ميں پريشان ہوں كہ آيا ميرے ليے يہ رقم حلال ہے يا حرام ؟

يہ علم ميں رہے كہ ميرا اور ميرے محكمہ كا افسر ميرے كام سے خوش ہے، كہ ان كى نظر ميں ميں ايك چست ملازم كى حيثيت ركھتا ہوں ہو سكتا ہے يہ رقم ميرى اس حرص اور كام اچھى طرح كرنے كى وجہ سے ہو كيونكہ ميرى تنخواہ تھوڑى ہے، اور اگر ميرے ليے يہ رقم حلال نہيں تو ميں اس كا كيا كروں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

” يہ سوال بہت زيادہ ہوتا ہے.

اب ميں آپ سے سوال كرتا ہوں كہ: كيا يہ حق ہے يا باطل ؟

انسان نے جو يہ رقم ايك معين كام كى بنا پر حاصل كي ہے آيا اس نے يہ كام كيا بھے ہے يا نہيں ؟

اس نے كام نہيں كيا، اگر اس نے كام كيا ہى نہيں تو پھر يہ رقم لينا ناحق ہوگى، اور ناحق مال لينا مكمل طور پر باطل طريقہ سے مال كھانا ہے اس كے ساتھ ساتھ يہ امانت ميں خيانت بھى ہے، حتى كہ اگر افسر اس كى موافقت بھى كرے تو وہ خائن ہے، اور يہ مال اس كا نہيں، يعنى اس افسر كا نہيں، حتى كہ جس طرح وہ چاہے اس مال ميں تصرف كرتا پھرے، يہ مال تو حكومت كا ہے، اور ميرے خيال كے مطابق اس سائل نے اپنے كيے سے توبہ كر لى ہے, ….

ديكھيں: الباب المفتوح ( 114 ) سوال نمبر ( 15 ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:

ميں ايك بستى كے گورنر ہاؤس ميں ملازم تھا جو ميرے گھر سے ( 75 ) كلو ميٹر دور ہے، راستہ بھى صحرا اور شديد سخت ہے، جب ميں بار بار وہاں جاتا تو مجھے بہت مشقت ہوتى، اس ليے ميں اس علاقے كے امير سے كہا كہ مجھے ہفتہ ميں دو يوم ڈيوٹى كى اجازت دے دو، تو وہ مجھے كچھ روز رخصت ديتا، اور بعض اوقات رخصت نہ ديتا، اس طرح دو برس بيت گئے، تو جن ايام ميں حاضر نہيں ہوا اور امير كى اجازت بھى نہ تھى ان كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

جن ايام ميں آپ بغير اجازت ڈيوٹى سے غائب رہے ہيں ان ايام كى تنخواہ لينا حلال نہيں؛ كيونكہ تنخواہ كام كے عوض ميں ہے، اور جب آپ كام مكمل كرينگے تو تنخواہ بھى پورى لينے كے حقدار ہيں، اور اگر كام كيا ہے تو تنخواہ پورى لينے كا حق نہيں ركھتے، اور اگر اب آپ نے بغير كمى كے پورى تنخواہ لى ہے تو آپ كے ليے ضرورى ہے كہ اگر ممكن ہو سكے تو آپ نے جس سے لى ہے اسے واپس كريں، اور اگر آپ كو پوچھ گچھ اور مشقت كا ڈر ہے تو پھر آپ اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے اسے صدقہ كر ديں، يا پھر مسجد ميں صرف كر ديں، يا پھر عموى راستہ كى مرمت ميں لگا ديں، تا كہ اس سے گناہ سے بچ سكيں.

سائل:

ميں نے اپنے اسى افسر سے اجازت لى ہو تو كيا حكم ہے ؟

الشيخ:

اگر آپ نے اس سے اجازت لے ركھى ہے، يعنى اپنے افسر سے اجازت لى ہے اور آپ كو علم ہے كہ كام كو آپ كى ضرورت ہے، تو پھر آپ اس كى اجازت قبول نہ كريں، آپ كا حاضر ہونا ضرورى ہے، چاہے وہ آپ كو نہ آنے كى اجازت بھى دے، ليكن اگر كام اور محكمہ ميں آپ كى ضرورت نہيں اور آپ كو افسر اجازت دے تو پھر مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں ”

ديكھيں: الباب المفتوح ( 14 ) سوال نمبر ( 17 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android